کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 47
غلام تھا۔ اب تو مدت ہو گئی، کسی عالم سے کسی موقع پر وکالت کے پیشہ کی بابت ایک لفظ نہیں سنا۔ اور لیجئے انگریزی قانون اتنی مدت سے نافذ ہے اور چوری کے جرائم کی تعداد برابر بڑھتی جاتی ہے جہاں چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے وہاں یہ حال ہے کہ مدینہ کے والی نے مجھے بتایا کہ تین چار سال میں کوئی ایک چھوٹا موٹا واقعہ سامنے آتا ہے۔ بہرحال یہ سمجھنا غلط ہے کہ جس کثرت سے روز چوری کے مقدمات ہوتے ہیں اسی کثرت سے روزانہ ہاتھ کاٹے جایا کریں گے۔ اگر ایک ہاتھ کٹنے سے کئی برس تک معاشرہ کو امن و سکون مل جائے تو کونسا مہنگا سودا ہے؟ اس میں کونسی وحشت اور بربریت ہے۔ نیو یارک کی سڑکوں پر مغرب کے بعد نکلنا خطرناک ہو تو تہذیب و تمدن کا عروج ہے اور مکہ میں دوکان کھلی چھوڑ کر آپ اطمینان سے گھنٹہ دو گھنٹہ کے لئے کہیں چلے جائیں تو رجعت پسندی اور بربریت ہے!!! ’’محتسب‘‘ کا لفظ کچھ ایسا غزل کے نذر ہوا ہے کہ ہم اپنے نظام احتساب کو بھول گئے ہیں۔ یہ نظام سارے عالمِ اسلام میں رائج تھا۔ البتہ اندلس کی تاریخوں میں اس کی تفصیلات ملتی ہیں۔ ناپ تول میں کمی، ملاوٹ، نفع خوری اور گلی کوچوں میں بد اخلاقیوں کا یہ واحد موثر علاج ہے۔ اگر ایک قاضی مجسٹریٹ کے درجہ کی محترم اور باوقار ہستی پیادہ بازاروں میں گشت کرے، خود جانچ پڑتال کرے۔ عوام کی شکایات سنے اور وہی کے وہیں موقع پر قرار واقعی سزا دے تو ان سماجی برائیوں کے خاتمہ میں کتنی دیر لگتی ہے۔ آپ نے یہ غور نہیں کیا کہ اگر محتسب اپنی کچہری میں بیٹھا رہتا اور مقدمات کی پیشی کا انتظار کرتا، تاریخ پر تاریخ بڑھتی وکیلوں کو جرح و بحث کا موقع ملتا تو پھر میخواروں کو محتسب کا اتنا ڈر کیوں ہوتا؟ اور سنیئے! مجھے ابھی تک نہیں معلوم کہ میری طالب علمی کے زمانے میں طالب علموں کے قانونی حقوق کیا تھے؟ البتہ اتنا یاد ہے کہ کبھی میرے یا میرے والد کے ذہن میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ استاد کے خلاف مقدمہ بھی دائر کیا جا سکتا ہے۔ آج استاد اگر طالب علم تو سزا دے تو تیار کرتا ہے۔ ثبوت کا ریکارڈ بناتا ہے اور یہ یاد رکھتا ہے کہ اگر طالب علم کا باپ پیسہ والا ہو تو وہ کوئی بڑا وکیل لے کر عدالت پہنچے گا اور بڑا وکیل وہ ہے کہ چاہے معاشرہ کو کچھ نقصان پہنچے، اس کا موکل کامیاب ہو جائے۔ ویسے عدالت کے باہر معاشرتی اصلاح پر وہ بڑی اچھی تقریر بھی کر سکتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ استاد ٹک ٹک دیکھتے ہیں اور کچھ نہیں بولتے جب اس صورت حال سے استاد کے علاوہ کسی دوسرے کو تکلیف پہنچتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ استادوں نے اپنا وقار اور اثر کھو دیا ہے۔
یہ چند مثالیں ہیں اس بات کی کہ انگریزی قانون جرائم کی انسداد میں ناکام ہے۔ اس کے تحت سماجی برائیوں کا یہ حال ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ اس کے برخلاف اسلامی قانون کا