کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 45
کی گئی لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ شریعت کو کسی اجنبی قانون سے بدلا گیا ہو۔ مسلمان اپنی بد اعمالیوں کے نتیجہ میں یہودیوں سے قرض لیتے اور انہیں سود دیتے رہے لیکن کسی کو ’’ربوٰا‘‘ حلال کرنے کی نہ سوجھی۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ جب مسلمان عروج پر تھے تو دوسری قومیں تہذیب اور معیشت کے اعتبار سے اتنی پست تھیں کہ فیشن کے طور پر کسی کی نقالی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ صلیبی جنگوں میں جب یورپ سے نیم وحشی جماعتیں شام پہنچیں تو انہوں نے پہلی دفعہ ایک مہذب اور متمدن معاشرہ دیکھا۔ اس ترقی یافتہ معیشت اور معاشرہ کی کونسی ضرورت ایسی تھی جو اسلامی قانون سے پوری نہ ہوتی ہو؟ بنو عباس کے دور میں مسلمانوں نے یونانیوں کے سارے علمی خزانے کھکول ڈالے۔ ارسطو کو ’’معلم‘‘ کے لقب سے نوازا۔ لیکن دو چیزیں ایسی تھیں جنہیں اپنے استفادہ کے لائق نہ سمجھا۔ پہلی چیز یونانی ادب۔ ارسطو نے خطابت اور شعر پر جو لکھا ہے وہ عربی میں منتقل ہوا۔ عربی ترجمہ آج تک موجود ہے لیکن ترجمہ کے ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی کہ ارسطو نے جو معیار قائم کئے ہیں وہ عربی شعر و ادب کی مخصوص فطرت سے میل نہیں کھاتے۔ لہٰذا وہ سب قابلِ توجہ قرار پائے۔ صرف خطابت کے چند اصول جو عام انسانی فطرت کے ملاحظہ پر مبنی ہیں ادب کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ آج اردو کے ناقدوں کا یہ حال ہے کہ انگریزی سے چور کرتے ہیں اور چوری نہیں کرتے تو اسی پر تکیہ کرتے ہیں۔ بسا اوقات ان کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ جب تک انگریزی اصل ذہن میں نہ ہو۔ اگر مغربی معیار کی ٹوپی ہمارے شعر و ادب کے سر پر ٹھیک نہ بیٹھے تو سر کا حجم اور شکل بدل دیتے ہیں۔ اور اس کو ہیئت کے نئے تجربہ کا نام دیتے ہیں۔ بھانڈ بھی جو کچھ کرتا ہے وہ ہیئت کے نئے تجربہ سے مختلف تو نہیں ہوتا۔ کہنا صرف یہ ہے کہ نئے تجربے ضرور کیجئے لیکن اپنی ہیئت تو مسخ نہ کیجئے۔ موجودہ دور میں بھی ادب اور شاعر اپنی کانفرنسوں میں باقاعدہ قرار داد کے ذریعہ یہ فیصلہ دے چکے ہیں کہ مثلاً آزاد نظم معرّی اور بے قافیہ نظم ہماری زبان کے مزاج اور فطرت کے خلاف ہیں۔ چنانچہ عربی میں اس بے راہ روی کا سد باب ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود جدید عربی شاعری جدت سے بھرپور ہے۔ الغرض عربوں نے یونانی ادب کی طرف ایک نظر دیکھا اور منہ پھیر لیا۔ رہی دوسری چیز یعنی قانون تو اس کی طرف تو دیکھا ہی نہیں۔
عباسی دور ختم ہوا تو عثمانی دور شروع ہوا۔ اس میں بھی وہی اسلامی قانون رائج رہا۔ شیخ الاسلام محض نکاح طلاق کے فتوے دینے کے لئے تو نہ تھا۔ پوری سلطنت کے نام قضاء کو شریعت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا اس کی ذمہ داری تھی۔ جب نئی تدوین کی ضرورت پیش آئی تو وہی اسلامی قانون تھا جسے ’’مجلہ‘‘ کی شکل میں ڈھالا گیا۔ اس میں کسی غیر مسلم کی رائے شامل نہ تھی۔ نہ کسی غیر اسلامی قانون سے