کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 44
میں مشکل سے ملے گی۔ الغرض یہ طبقہ جس نے اسلام کو نظریہ حیات بنا ڈالا ہے یہ اسلامی قانون و شریعت کو دلوں سے بھلا دینے کا مجرم ہے دوسری طرف ایک طبقہ وہ ہے جسے حکومت اور تمام دنیاوی کاروبار سے ایسا بے دخل کیا گیا ہے کہ وہ عملی طور سے اسلامی شریعت کے نفاذ سے مایوس ہو چکا ہے۔ اس لئے اس نے اسلام کو عبادات میں محصور کر دیا ہے اور اپنے دائرۂ نفوذ کو توسیع دینے کے لئے طرح طرح کی غیر اسلامی رسمیں اور بدعتیں ایجاد کرتا رہتا ہے۔ اس سب کے ساتھ یہ ایک پیش پا افتادہ حقیقت ہے جس کا اعتراف مشکل ہی سے کیا جاتا ہے کہ انگریز نے دو چیزیں ایسی چھوڑی ہیں جن سے چھٹکارا پانا آزادی کے دور میں بھی آج تک کسی اسلامی ملک کو نصیب نہیں ہوا۔ ایک تو ہے نام تعلیم اور دوسرے قانون۔ جس طرح حج میں لوگ (الا ماشاء اللہ)شیان پر کنکریاں پھینک کر آتی ہیں اور ویسے کے ویسے رہتے ہیں اسی طرح ہمارے ماہرین تعلیم انگریزی نظام تعلیم کی کیا کیا برائیاں نہیں کرتے لیکن بنیادی اصلاح اور پست کر دیتے ہیں۔ اصلاح کے لئے جس وسعت علم، ثقافت اور انقلابی فکر اور جرأت کی ضرورت ہے وہ ہمارے یہاں مفقود ہے۔ اس تمہید سے مقصد یہ ہے کہ اسلام اگر شریعت و قانون نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ اب ذرا تاریخ کا مختصر جائزہ لیجئے۔ جب اسلام آیا تو اس نے سب سے پہلے جزیرہ عرب میں اپنا قانون نافذ کیا۔ جب فتوحات کا سلسلہ چلا تو بہت سے ایسے ممالک قبضہ میں آئے جہاں رومانی اور ایرانی قانون چلتا تھا۔ ہر جگہ مسلمانوں نے اپنی شریعت اور اپنا قانون نافذ کیا۔ یہ بتاتا چلوں کہ جہاں تک حکومت کے نظم و نسق (Administration)کا تعلق ہے مسلمانوں نے رومیوں اور ایرانیوں سے بہت کچھ لیا اور سیکھا۔ ضرورت ظاہر ہے۔ عرب منظم مرکزی حکومت سے نا آشنا تھے۔ اور ان کے پاس مرکزی حکومت کے ادارے (Institutions)نہ تھے لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ’دیوان‘ قائم کرنا یا عبد الملک کا سکہ اور برید کے نام کو فروغ دینا اور بات ہے۔ قانون بالخصوص معاملات اور تعزیرات کا قانون اور بات ہے۔ فن تعمیر میں فلسفہ اور سائنس میں عربوں نے سب ہی کچھ دوسری قوموں سے لیا اور بلا جھجک بغیر کسی احساس کمتری کے پورے اعتراف اور شرکیہ کے ساتھ لیا۔ اور جو کچھ لیا اسے بڑے سلیقہ سے برتا مگر قانون کے دائرہ میں کسی دوسری قوم سے کچھ لینا اسلام کے وجود کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ چنانچہ بنو امیہ کا دور ہو یا بنو عباس کا۔ قانون وہی شریعت کارہا۔ یہ صحیح ہے کہ کسی دور میں خلوص کے ساتھ اسے نافذ کیا گیا اور کسی دور میں اس پر عمل کرانے میں چشم پوشی