کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 43
کا احساسِ ذمہ داری آپ نے دیکھا۔عملی طور سے انہوں نے بھی شاید کوئی بڑا قدم نہیں اُٹھایا لیکن احساس ذمہ داری تو ہے کیا ہماری سفارت کے کسی رکن کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ اتنی سمجھ خلوص اور ہمدردی سے انگلینڈ میں بسنے والے پاکستانیوں کے احوال کا جائزہ لے؟ بہتوں سے وہاں کے پاکستانیوں کے لطیفے سننے کا اتفاق ضرور ہوتا ہے اور ہاں! ہمارے لیڈر جو طرح طرح کے پلان بنانے کے لئے علاج کے بہانے لندن جاتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کبھی اس طرف توجہ کی؟ ہماری حکومت کو اس سے دلچسپی ہے، کہ پاکستانی وہاں سے زر مبادلہ کما کر بھیجتے رہیں۔ یہ دلچسپی بے جا نہیں، لیکن ان پاکستانیوں کو جہل سے نجات دلانا، غیر ملک میں ان کا وقار بڑھانا، ان کی اسلامی ثقافت اور پاکستانی تہذیب کو برقرار رکھنا کس کی ذمہ داری ہے؟ عالمانِ شریعت ورثۃ الانبیاء ہیں۔ خدا انہیں رشد و ہدایت کی جرأت و ہمت دے لیکن یہ پیرانِ طریقت جو جہل کا خراج وصول کرتے پھرتے ہیں انہیں کب تک چھوٹ ملی رہے گی؟ سوشلسٹ حکومت سے ایک توقع یہ تھی جو خاک ہو گئی۔ خود اپنے گھر کا حال یہ ہے کہ مزاروں پر اوہام خرافات اور بدعتوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ہیتھ رو کے ہوائی اڈے کو موچی دروازہ بنا دینا آسان ہے لیکن اپنے ضابطۂ حیات سے اپنے علم اور پاکیزگی اخلاق سے دوسری قوموں کو متاثر کرنا عقل شعور تنظیم اور اَن تھک محنت کا کام ہے۔ الجزائر میں علماء کے اجتماع کی روئداد ختم ہوئی، تعلیم یافتہ اور مفکر طبقہ نے توجہ سے پڑھا اور مجھ سے چند سوالات بھی کیے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ انہیں خاص طور پر اسلامی فقہ و قانون سے دل چسپی پیدا ہوئی۔ اگر تھوڑا سا اس کا تاریخی پس منظر بیان کر دیا جائے تو امید ہے کہ الجزائر کے اجتماع میں جو نکات زیر بحث آئے ان کے سمجھنے میں مدد ملے گی۔ صد افسوس کہ ہمارے یہاں ایک طبقہ نے جو عربی و اسلامی علوم سے بے بہرہ اور اسلام سے خود غرضانہ اور ریاکارانہ دلچسپی رکھتا ہے۔ اس طبقہ نے اسلام کو ایک آئیڈیالوجی بنا ڈالا ہے جس کا اردو ترجمہ ’نظریۂ حیات‘ کیا جاتا ہے جو زشتہ چودہ صدی کے اسلامی لٹریچر میں کہیں استعمال نہیں ہوا۔ یہ طبقہ چونکہ حکومت میں دخیل ہے دنیاوی جاہ کا مالک، ڈکٹیٹروں کے ظلم و استبداد میں اپنا حصہ لگاتا ہے اور جب جمہوریت کی ہوا چلے تو عوام کے جمہوری حقوق پر بھی تقریریں جھاڑ دیتا ہے۔ اس لئے نظریہ حیات کی اصطلاح ایسی چل پڑی ہے کہ علماء کی زبان پر بھی چڑھ گئی ہے جو اسلامی جماعتیں ووٹ کی دیوانی ہیں وہ اس کی حفاظت کے لئے میدان میں اتر آئی ہیں اور اس کے نام پر سرمایہ داروں، زمینداروں سے لاکھوں روپے چندہ جمع کر چکی ہیں۔ حد یہ ہے کہ اسلامی نظریۂ حیات ہماری یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہے جو علمی دیوالیہ پن کی کھلی دلیل ہے۔ اسلامی نظریۂ حیات کو ایک منضبط علم(Academic Discipline)کا درجہ دینا ایسی ڈھٹائی ہے جس کی مثال دنیا