کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 39
یہ امید بے جا نہیں کہ جب الجزائر کے اقتصادی حالات بہتر ہو جائیں گے تو ترکِ طن کا محرک باقی نہیں رہے گا لیکن اس وقت تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھا جا سکتا۔ اس وقت یورپ میں الجزائر کے ساٹھ ہزار خاندان آباد ہیں ان میں بیس سال سے کم عمر کے ڈھائی لاکھ سے زیادہ نوجوان لڑکے لڑکیاں ہیں۔ ان کو جو خطرے در پیش ہیں وہ یہ ہیں۔
۱۔ اجتماعی اور سماجی خطرے: یہ تارکینِ وطن تنہائی اور ماحول سے عدم مطابقت کے نتیجے میں طرح طرح کے امراض کا شکار ہوتے ہیں۔ ان میں جنسی امراض اور سینہ کے امراض خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ گھر سے تربیت پا کر جب الجزائری فرانس جاتا ہے تو وہ کھانے پینے کی ان تمام چیزوں سے پرہیز کرتا ہے جو اسلام میں حرام ہیں۔ حلال چیزیں اسے ملتی نہیں اور اگر ملتی ہیں تو اس کی قوتِ خرید سے باہر ہوتی ہیں۔ اب کچھ ایسی جماعتیں کام کرتی دکھائی دیتی ہیں جو ذبیحہ کی اور بعض دوسری کھانے پینے کی سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔ ان کو بسا اوقات حکومت کی سرپرستی اور امداد بھی حاصل ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے عمل کی نوعیت کچھ مشکوک ہو جاتی ہے۔ بہرحال یہ اجتماعی اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کرنے کی بجائے اسلام کے نام پر مسلمانوں کو بے وقوف زیادہ بناتی ہیں اور اپنا الّو سیدھا کرتی ہیں وہ بات اپنی جگہ پر ہے کہ مسلمانوں کو اس قسم کی غذا میسر نہیں آتی جو اس کی صحت کے لئے ضروری ہے۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ صحت کے تقاضوں کے مطابق رہنے کو مکان نہیں ہوتا۔ چھوٹی جگہ میں بہت سے آدمی رہتے ہیں جہاں گرم رکھنے کا انتظام نہیں ہوتا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ سانس لینا بھی دشوار ہتا ہے ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک پلنگ پر باری باری کئی آدمی سوتے ہیں جس سے متعدی امراض پھیلتے ہیں۔ ان میں سے کسی کو زکام ہو جائے تو وہ ایک دن آرام نہیں کرتا۔ برابر کام پر جاتا ہے کہ اجرت کا نقصان نہ ہو یہاں تک کہ مرض بڑھ کر خطرناک شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سردی سے بچنے کے لئے کپڑوں کا اہتمام نہیں کرتے حالانکہ یہ مقامی مزدوروں کی طرح شراب بھی نہیں پیتے جس سے کچھ بدن کی حرارت کا سامان ہو۔ سخت اور جان لیوا کام جس سے مقامی مزدور گریز کرتے ہیں وہ یہ بخوشی قبول کر لیتے ہیں اور اپنی طاقت سے زیادہ اور مقررہ اوقات سے زیادہ کام کرتے ہیں جس کے نتائج تباہ کن ہوتے ہیں۔ فیکٹریوں اور کارخانوں میں حادثات سےدو چار ہوتے ہیں اس لئے کہ مشینوں کے استعمال سے متعلق لکھی ہوئی تعلیمات پڑھ نہیں سکتے۔ اعداد و شمار سے پتہ لگتا ہے کہ عورتیں خاص طور پر عقلی امراض میں مبتلا ہو جاتی ہیں اس لئے کہ وہ ایک قیدی کی طرح پڑی رہتی ہیں اور تنہا زندگی کی صعوبتیں جھیلتی ہیں۔
یہ حال تو اس نسل کا ہے جو وطن سے تربیت پا کر باہر جاتی ہے۔ یہ اپنے وطن سے عزیز رشتہ داروں