کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 38
مسلم اقلیتوں کے ذیل میں ان الجزائری باشندوں کا مسئلہ ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے جو اس صدی میں طلبِ رزق کے لئے جا کر فرانس میں آباد ہو گئے ہیں۔ فرانس میں الجزائری باشندوں کی فلاح و بہبود کو الجزائر کی حکومت اپنی بہت ڑی ذمہ داری سمجھتی ہے۔ اس موضوع پر ایک خصوصی مقالہ دکتور العربی زبیری نے پڑھا۔ دکتور زبیری یورپ میں الجزائری باشندوں کے امور مذہبی کے نگران ہیں۔ نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ حکومت کے اعلیٰ عہدہ دار، تواضع اور علم کا احترام ان کی نمایاں صفت۔ یہ بات ’سول سروس کی جنت‘ کے علاوہ اور کہیں دیکھنے میں نہیں آئے گی کہ علماء کا یونیورسٹی کے پروفیسروں کا اجتماع ہو اور ایک معمولی بی۔اے۔ ایم۔ اے۔ پاس سول ملازم کرسی صدارت کی طرف بڑھے۔ تفوبر تو اے چرخ گرداں تفو! الغرض دکتور زبیری اختصاصی معلومات رکھتے تھے جو انہوں نے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران بطورِ خود مستعدی اور خلوص سے جمع کی تھیں ان کا مقالہ بہت مفید تھا اور یہ ایک ہی مقالہ تھا جس کی بابت مناقشہ کی گنجائش نہیں پائی گئی۔ دکتور زبیری لکھتے ہیں: اس وقت بیس میں سے ایک الجزائری ملک کے باہر روزی کماتا ہے۔ اس کا تاریخی پس منظر ہے۔ فرانس نے الجزائر پر قبضہ کرنے کے بعد یہاں کی اقتصادیات تمام تر فرانسیسی آباد کاروں کے تصرف میں دے دیں۔ تمام اچھی زمینوں کا انہیں کو مالک بنا دیا۔ اہلِ وطن محرومی اور بیکاری کا شکار ہوئے۔ ۱۹۱۲ء میں فوج میں جبری بھرتی کا قانون نافذ ہوا۔ جب الجزائری فوجی خدمت کے سلسلے میں یورپ گئے تو انہوں نے وہاں کی معیشت کو وطن کی معیشت سے بدرجہا بہتر پایا۔ وہاں کی ترقی یافتہ صنعت و حرفت کو ان کے زورِ بازو کی ضرورت تھی۔ یہ وہیں رہ پڑے۔ ان کی دیکھا دیکھی ترک وطن کا سلسلہ شروع ہو گیا جو آج تک جاری ہے۔ ایسا بھی ہوا کہ تعلیم یافتہ حساس نوجوانوں نے دیکھا کہ جن شہری حقوق اور بنیادی آزادیوں کا فرانس کے مقبوضہ الجزائر میں خون ہو رہا ہے وہ حقوق اور آزادیاں انہیں فرانس میں نصیب ہو سکتی ہیں۔ اس لئے انہوں میں فرانس میں سکونت کو ترجیح دی۔ پورے یورپ میں جو باہر کے مزدور کام کر رہے ہیں ان کا دسواں حصہ الجزائری ہیں۔ ۱۹۱۴ء سے لے کر ۱۹۶۲ء تک فرانس میں رہنے والے الجزائری ایک فرانسیسی شہری کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے حقوق و فرائض وہی تھے جو فرانس کے اہل وطن کے تھے۔ الجزائر کی آزادی کے بعد سے سارے الجزائری فرانس میں اجنبی اور پردیسی بن گئے۔ اب ان کو صرف وہ حقوق ملیں گے جو دونوں حکومتوں کی باہمی رضا مندی سے طے پاجائیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ اب ان کے خلاف بہت سے تعصبات اور عداوتیں کار فرما ہیں۔