کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 37
طریقوں سے اس اسلامی ورثہ کو کیونکر تباہی سے بچایا جا سکتا ہے؟ آپ ایک عربی و اسلامیات کا پروفیسر بھیج دیں۔ کتابیں تحفہ میں دے دیں، مالی امداد کر دیں۔ اس سے صورت حال میں کیا فرق پڑتا ہے۔ ہاں! اگر مسلم حکومتیں یک زبان ہو کر احتجاج کریں تو کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہو گا۔ بات لشکر کشی یا انتقامی کارروائی کی نہیں۔ صرف ذرا سی اخلاقی جرأت کی بات ہے۔
میں اپنے نقطہ نظر کی حمایت میں شاید بہت آگے بڑھ گیا، بحث علمی تھی، لیکن سیاست کے حوالہ سے ہو رہی تھی۔ سخن گسترانہ پاکستان کا نام بھی آگیا۔ دکتور بیصار کی جوابی تقریر کا رخ بیشتر میری طرف تھا۔ انہوں نے بڑی شدت سے اپنی رائے کا اعادہ کیا اور سیاست کی گندگی بلکہ حماقت اور جہالت کو کھول کر رکھ دیا۔ ان کا یہ کہنا صحیح تھا کہ جہاں اسلام کا واسطہ ہو وہاں سیاست میں سب امام ہوتے ہیں اور مقتدی کوئی نہیں۔ اس لئے کسی بھی منظم عمل کی توقع عبث ثابت ہوتی ہے حکومتوں کا حال اس لئے برا ہے کہ اربابِ حکومت بسا اوقات علم سے محروم ہوتے ہیں اور اہل علم کو دور رکھتے ہیں۔ اس ذیل میں انہوں نے اپنا تجربہ بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ جس زمانہ میں، مَیں اسلامک سنٹر واشنگٹن کا ڈائریکٹر تھا تو میرا سابقہ تمام اسلامی ملکوں کے سفیروں سے رہتا تھا جو سب کے سب سترہ اٹھارہ بلحاظ عہدہ سنٹر کی مجلسِ ادارت (گورننگ باڈی)کے ممبر تھے ان میں شاذ و نادر ہی کوئی علم کی بات کرتا تھا سب کے سب سفارت کی آن بان کے ساتھ بولتے تھے اور اپنا اپنا راگ الاپتے تھے۔ ایک مرتبہ میں نے عید کی نماز پڑھائی تو اتفاق سے سورۃ الطارق کی یہ آیت تلاوت کی یوم تبلی السرائر فماله من قوة ولا ناصر آخری لفظ ’ناصر‘ ایک اسلامی ملک کے سفیر سمجھ پائے اور وہ ان کی سیاست کو ایسا کھٹکا کہ نماز کے بعد احتجاجاً بولے (انگریزی میں)ڈاکٹر بیصار! آپ نماز میں ’ناصر ازم‘ کا پرچار کرر ہے تھے۔ علم و دانش کے اس شاہکار پر سارا ہال قہقہہ سے گونج اُٹھا۔ قہقہہ میں بھی شریک تھا لیکن میری نظریں نیچی تھیں۔ میرے لئے ڈوب مرنے کا مقام تھا۔ اس لئے کہ ڈاکٹر بیصار نے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی تھی اور پاکستان کا نام بھی لے دیا تھا۔ الغرض یہ قہقہہ اس سنجیدہ اور گرم گرم بحث کا مقطع بن گیا اور سب ہلکے پھلکے ہنستے ہوئے مجلس سے باہر نکلے۔
اس پر مجھے یاد آرہا ہے کہ دکتورہ بنت الشاطی مصر کی نامور ادیبہ اور یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ چند سال ہوئے وہ ہندوستان گئی تھیں۔ واپسی پر انہوں نے قاہرہ کے روزنامہ الاہرام میں ایک مضمون لکھا۔ انہوں نے لکھا۔ مجھے سخت حیرت ہوئی جب میں ہندوستان میں ایسے لوگوں سے ملی جو عربی زبان سے نابلد ہیں اور ان میں سے کسی نے قرآن کا ترجمہ کر ڈالا ہے اور کسی نے تفسیر لکھ ڈالی ہے دکتورہ بنت الشاطی نے مسلم حکومتوں سے اپیل کی تھی کہ جس طرح وہ قرآن کو غلط طباعت سے محفوظ رکھنے کا اہتمام کرتی ہے اسی طرح قرآن کو نا اہلوں کے ترجمہ و تفسیر سے محفوظ رکھنے کا بھی اہتمام کریں۔ یہ بات اس وقت کی ہے جب نہ مولانا کوثر نیازی وزیر تھے اور نہ ہماری حکومت کو اس طرف توجہ تھی۔ آج اگر یہ بات کان میں پڑ جائے تو شاید دل کو لگ جائے۔ کم از کم اتنا تو ہو کہ جو ادارے حکومت کی نگرانی میں ہیں ان میں کوئی شخص عربی زبان کا باقاعدہ علم حاصل کئے بغیر قرآن پر لب کشائی اور خامہ فرمائی نہ کرے۔ علمی دیانت اور دین کے تقدس دونوں کا یہی تقاضا ہے۔