کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 36
انجام دینا ہے۔ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے اور آج بھی یہی ہو رہا ہے کہ حکومتوں کی دلچسپی کے بغیر اقلیتوں کی حمایت کا مسئلہ محض علمی اور جذباتی مسئلہ بنا رہتا ہے جب حکومت کوئی اقدام کرتی ہے۔ خواہ وہ محض قول اور زبانی احتجاج تک محدود ہو۔ تب ہی کچھ اثر کی توقع ہوتی ہے۔ جس طرح بھلی بری حکومت کے بغیر ایک معاشرہ کا تصور نا ممکن ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی میدان میں بعض کام ایسے ہیں جو حکومت کے توسط کے بغیر نہیں ہو سکتے۔ یہ صحیح ہے کہ بڑی طاقتوں کی طرف جھکاؤ کے بارے میں مختلف مسلم ممالک مختلف خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ لیکن اگر حق انصاف اور اسلامی اخوت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے تھوڑی سی جرأت اور قربانی کا جذبہ نہ ہو تو بات کرنا ہی فضول ہے۔ مختلف اوقات میں پاکستانی حکومتوں کا جھکاؤ امریکہ کی طرف رہا ہے لیکن اس کی وجہ سے انہوں نے فلسطین میں عربوں کے حقوق کی حمایت کرنے میں آنا کافی نہیں کی۔ بحث کے دوران اقوام متحدہ کا بھی ذکر آیا تھا۔ میں نے کہا کوئی مسلم ملک ایسا خوش قسمت نہیں جسے اقوام متحدہ سے کچھ بھی ہاتھ لگا ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے حق و ناحق بڑی طاقتوں کی چوہدراہٹ اور بالا دستی قائم رکھنے کے سوا کوئی مسئلہ حل نہیں کیا۔ پاکستان کا تازہ تلخ تجربہ یہ ہے کہ وہ ادارہ جو قوموں کی سالمیت اور آزادی اور بین الاقوامی امن کی نگرانی کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ اسی ادارہ کا ایک رکن، ایک بڑی طاقت کی مدد اور پشت پناہی میں، ایک دوسرے رکن پر جارحانہ حملہ کر کے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتاہے۔ تھوڑے دن بعد اس ادارے کے ارکان یکے بعد دیگرے اس جارحانہ حملہ کی حقیقت کو ’حقیقت بنگلہ دیش نہیں، بلکہ پاکستان پر جارحانہ حملہ ہے)خود اپنے ہی منشور کی عصمت وری کو دھڑا دھڑ تسلیم کر لیتے ہیں۔
ایں دم تحریر یہ اضافہ کر لیجئے کہ جب اٹلی نے ابی سینا پر حملہ کیا تو اقبال کی دور رس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ لیگ آف نیشنز کا قابوت تیار ہے مستقبل کا مورخ بتائے گا کہ پاکستان پر حملہ یونائیٹڈ نیشنز کے مرض الموت کی علامت ہے یا نہیں۔ اس میں تو شک نہیں کہ اسے بھی جلد یا بدیر موت آنی ہے۔
آخر میں میں نے کہا کہ ایک ٹھوس مثال لیجئے: ہندوستان کی مسلم اقلیت ایک باعزت اور باشعور اقلیت ہے۔ اس نے ذامے درمے سخنے ہمیشہ اپنی اسلامی حمیت کا ثبوت دیا ہے۔ اس نے محض اپنے ذرائع و وسائل پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی تعلیمی اور ملّی ضروریات کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم کی، جس کی آغوش میں تربیت پانے کا مجھے بھی فخر حاصل ہے۔ اس یونیورسٹی میں نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں کی بلکہ افریقہ اور ایشیاء کے دور دراز حصوں میں بسنے والے مسلمانوں کی قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ہندو طلبہ پر بھی اس کے دروازے برابر کھلے رہے ہیں۔ آج ہندوستان کی حکومت جبر و تشدد کے ذریعہ اس عظیم یونیورسٹی سے اس کی اسلامیت چھیننے یا یوں کہئے کہ اس کی روح سلب کرنے پر مُصّر ہے۔ کوئی بتائے کہ غیر سرکاری