کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 34
رکھتی ہیں۔ اس کے باوجود غیر مسلم اکثریت کی حکومتیں وقتاً فوقتاً انہیں تفریقِ عنصری اور سیاسی ظلم کانشانہ بناتی رہتی ہیں۔ جو مسلم اقلیتیں علمی و اقتصادی لحاظ سے آگے بڑھی ہوئی ہیں وہ کچھ نہ کچھ اپنا دفاع کر لیتی ہیں اور بیرونی دنیا کو اپنی آواز سنا دیتی ہیں۔ اس صورت میں بھی مسلم حکومتوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ مسلم اقلیتوں کے حقوق کی حمایت میں جتنا بھی ممکن ہو اپنا اثر و نفوذ استعمال کرنے میں دریغ نہ کریں۔ ان مسلم اقلیتوں کا مسئلہ بے شک مایوس کن ہے جو تعداد میں بہت کم ہیں مثلاً قبرص میں ۸۰ ہزار، روڈس میں ۱۵ ہزار، رومانیا میں ۲۰ ہزار، پولینڈ میں ۵ ہزار مسلمان ہیں۔ قبرص کے مسلمانوں کو حکومتِ ترکی کی حمایت حاصل ہے اور ان کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیر مسلم اکثریت میں ضم نہیں ہونے دیں گے لیکن اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ اگر مسلم حکومتوں نے کوئی متحدہ کوشش ہ کی تو باقی اور جو اقلیتیں ہیں وہ ایک نہ ایک روز غیر مسلم اکثریت میں گھل مل جائیں گی۔ استاد محمد عبد اللہ عنان کو اندلس کی تاریخ سے خاص شغف ہے اور اس موضوع پر ان کی کئی اعلیٰ تصانیف ہیں۔ انہوں نے اندلس کی تاریخ سے مثال دیتے ہوئے کہ کہ جب اندلس کے عیسائیوں نے یکے بعد دیگرے مسلمانوں کی ریاستوں اور ان کے علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کیا تو ان علاقوں کے بہت سے مسلمان عیسائی حکومتوں کے تابع بن کر وہیں کے وہیں رہ گئے۔ انہیں تاریخ میں ’مد جنون‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ ’مد جنون‘ رفتہ رفتہ عیسائیوں میں ضم ہو گئے محض اس لئے کہ مسلم حکومتیں ان سے بے تعلق ہو گئیں۔ انہیں ا نکے حال پر چھوڑ دیا یا یوں کہے کہ خدا کے حوالہ کر دیا، ان کے لئے کچھ نہ کیا یہاں تک کہ دعاؤں میں بھی بھلا دیا۔ اس وقت دو علاقے ایسے ہیں جہاں کھلم کھلا مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کی کوشش اور منظم کوشش جاری ہے ایک تو حبشہ اور ارٹریا میں تقریباً پچاس برس سے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔ حالانکہ ان کی تعداد تین چار ملین ہے پہلے ذکر آچکا ہے کہ مسلم حکومتیں، حتیٰ کہ قریب کی عرب حکومتیں اس بارے میں سکوت مصلحت آمیز کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں بلکہ شہنشاہ ہیلا سلاسی کی آؤ بھگت کرتی ہیں۔ دوسری طرف فلپین میں مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے اور ظلم و تشدد کے ایسے واقعات ہو رہے ہیں جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سال گزشتہ (۷۲ء)کے اسی اجتماع میں فلپین کے نمائندے نے اس کی تفصیلات بلا جھجک بیان کی تھیں۔ اسی فلپین میں بدھ اور دین نا آشنا قبائل بھی آباد ہیں لیکن عیسائیوں کے حملہ کا نشانہ صرف مسلمان ہیں۔ فلپین کے بارے میں مسلم حکومتوں کا شعور کچھ کچھ بیدار ہوا ہے لیکن مؤثر عمل کی منزل ہنوز دور ہے۔ اندلس ہی کی تاریخ سے ایک اور مثال دیتے ہوئے استاد محمد عبد اللہ عنان نے کہا کہ پندرہویں صدی