کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 32
’’گھڑی لسانِ حال سے کہتی ہے، دیکھو میں دین کے کام بہترین آلہ ہوں۔ جب تمہیں نماز کے وقت کا پتہ نہ چلے، نہ تو دن کو سورج دکھائی دے اور نہ اندھیری سیاہ رات میں ستارے روشن ہوں۔‘‘ یہ وہی عباس ہی فرانس ہے جو پہلی مرتبہ پرندوں کی نقل کرتا ہوا ہَوا میں اڑا اور جس نے مصنوعی بلوّر (کرسٹل)ایجاد کیا۔
الجزائر کے وزیرِ تعلیم کا کہنا تھا کہ عباس فرناس کے یہاں جو رُوح کار فرما تھی اسی کو برقرار رکھتے ہوئے علم الفلک اور فلکیات کے جدید آلات کو دین کے کام کے آلات سمجھنا چاہئے اور اگر مطلع ابر آلود ہو یا کسی وجہ سے چاند دیکھنا ممکن نہ ہو اور حساب کی رو سے افق پر چاند موجود ہو تو اسے تعلیم کر لینا چاہئے اور آنکھ سے چاند دیکھنا ممکن نہ ہو اور حساب کی رو سے افق پر چان موجود ہو تو اسے تسلیم کر لینا چاہئے اور آنکھ سے چاند دیکھنے پر اصرار نہ ہونا چاہئے۔ کچھ عرصہ قبل کویت میں مسلم وزراء اوقاف کی جو کانفرنس ہوئی تھی اس میں یہی فیصلہ کیا گیا کہ چاند کی گردش کے حساب کو ماہرین فلکیات پر چھوڑ دیا جائے اور وہ علمی وثوق کے ساتھ جو تقویم (کیلنڈر)تیار کریں اس پر عمل کیا جائے۔ کوئی تعجب نہ ہو گا اگر مستقبل قریب میں یہ فیصلہ نافذ ہو جائے مجھے اپنے بچپن کی بات یاد ہے کہ بھوپال میں نواب حمید اللہ خان عید گاہ میں لاؤد سپیکر نصب کرانا چاہتے تھے اور قاضی شہر کی یہ کوشش تھی کہ کسی طرح یہ بلا ٹل جائے۔ آج یہ حال ہے کہ آئے دن لاؤڈ سپیکر پر جو بدعتیں منائی جاتی ہیں ان سے پورے محلے کے طالب علموں کے مطالعہ میں اور مریضوں کے آرام میں خلل پڑتا ہے۔
اس بحث کے دوسرے روز الجزائر کے عربی روزنامہ نے ایک لطیفہ لکھا۔ بعد میں تصدیق ہوئی، کہ دراصل وہ ایک واقعہ ہے جو شاہ فیصل کو پیش آیا۔ چند بدو قبائلی شیخ اپنی کیڈلک کاروں میں بیٹھ کر شاہ فیصل کے محل پہنچے۔ اندر پہنچے تو شاہِ فیصل ایک ٹیلی ویژن پروگرام دیکھ رہے تھے۔ شیخ خالص بدوی انداز میں معترض ہوئے اور بولے، صحابہ رضی اللہ عنہم کے عہد میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ شاہِ فیصل نے نہایت خاموشی سے اپنے ملازمین کو بلایا اور ان سے کچھ بات کی۔ شیخ برہم تو تھے ہی۔ تھوڑی دیر بعد جانے کے لئے محل سے باہر نکلے اور الٹے پیروں اندر واپس آئے۔ مزید برہمی کے لہجے میں شاہِ فیصل سے بولے۔ ہماری کاریں غائب ہیں، کہاں چلی گئیں؟ شاہ فیصل نے کہا، صحابہ رضی اللہ عنہم کے عہد میں کاریں نہیں ہوتی تھیں۔ کاروں کی جگہ چند اونٹ کھڑے ہیں ان پر سوار ہو کر آپ جہاں سے آئے ہیں وہاں تشریف لے جائیں۔
اجتماع کے دوران اس پر مستقل بحث ہوئی کہ انسان چاہے تو ریڈیو ٹیلیویژن کے ذریعہ خیر کو فروغ دے اور چاہے تو گھر گھر فساد پھیلائے۔ یہ انسان کا اپنا فعل ہے اور وہ اس کے لئے ویسا ہی جواب دہ ہے جیسا کہ اپنے ہاتھ، پیر، کان، آنکھ اور زبان کے افعال کے لئے۔