کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 31
جاپان اور چین دیکھتے ہی دیکھتے کہیں سے کہیں پہنچ گئیں۔ اسلام علوم برابر کس مپرسی کی حالت میں ہیں۔ نظامِ تعلیم کی تشکیلِ نو کے سلسلہ میں اربابِ حکومت اسلامی علوم کو مرکزیت اور ان کے شایان شان اہمیت دینے کو تیار نہیں، قدیم اور جدید کے امتزاج کی جو کوششیں کی جاتی ہیں ان کی زد اسلامی علوم پر پڑتی ہے۔ برائے نام اسلام کو نصابِ تعلیم میں شامل کرنا اسلامی علوم کو فنا کرنے کا آسان طریقہ ہے اور اس سے وہ مقصد پورا ہوتا ہے جس میں شارل دوفوکو (اور میکالے)ناکام رہے انہوں نے اسلامی علوم کو نصاب سے خارج کر کے انہیں فنا کرنا چاہا لیکن وہ سرکاری اسکولوں سے باہر زندہ و باقی رہے۔ اب جو کوششیں جاری ہیں ان کا ما حصل یہ ہے کہ قدیم و جدید کے اجتزاج کے نام پر اسلامی مدارس کا وجود بے معنی ہو جائے اور اسلامی علوم نہ یہاں کے نہ وہاں کے، کہیں کے بھی نہ رہیں۔ اسلامی علوم کی تجدید کے نام پر جو کچھ کیا جاتا ہے اس سے بھی اسلام کی صورت مسخ ہوتی ہے۔ یہ تبشیر کے وہ مقاصد ہیں جو ہم خود اپنے ہاتھوں پورا کرتے ہیں۔
دکتور وصفی ابو مغلی نے اس نقطہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری مدارس میں طلبہ کو قرآن کی آیات اور احادیث رٹا دی جاتی ہیں اور قرآن و حدیث کے علم سے محروم رہتے ہیں۔ یہ حال عرب ممالک کا ہے۔ دوسروں کے سامنے کہتے شرم آتی ہے لیکن اپنوں کو تو معلوم ہونا چاہئے کہ ایوب کے دور میں جن ماہرینِ تعلیم کو بلا استحقاق اسلامی ریسرچ اور اسلامی تعلیم کا پرمٹ دیا گیا تھا انہوں نے عربی سے معریٰ ایسی اسلامیات ایجاد کی اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کی کہ ایم۔ اے کے درجہ میں بھی قرآن کی آیات اور احادیث نہیں بلکہ ان کا اردو ترجمہ رٹایا جاتا ہے۔ اگر سزا و جزا حق ہے تو اسلامی علوم کو رسوا کرنے اور اسلام کو بازیچۂ اطفال بنانے کا یہ جرم ناقابلِ معافی ہے۔
اس بحث کے ضمن میں استاد عثمان الکعاک نے ایک بڑی دلچسپ اور مفید بات بتائی جو قابلِ ذکر ہے۔ مسلمان سو ڈیڑھ سو برس سے مغربی نظام تعلیم اپنائے ہوئے ہیں۔ سائنس کی تعلیم پر خاص توجہ ہے، اور بے حد و حساب خرچ ہو رہا ہے، پھر بھی مسلمانوں کا سب سے بڑا سائنسدان وہ ہے جو مغرب کا ادنیٰ شاگرد ہو۔ سونے پر سہاگہ بعض نام نہاد علماء کے ایسے فتوے ہیں جن سے دشمنانِ اسلام کو یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ اسلام سائنس سے ڈرتا ہے اور اور بھاگتا ہے۔ استاد عثمان الکعاک نے کہا کہ جب عباس بن فرناس نے ۸۷۳ء میں پہلی گھڑی ایجاد کی تو اس کی غایت اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ نماز کے اوقات معلوم کرنے میں آسانی ہو۔ چنانچہ جب اس نے گھڑی قرطبہ کے اموی خلیفہ محمد بن عبد الرحمٰن کی خدمت میں پیش کی تو اس پر یہ دو شعر بھی لکھے تھے۔
الا اننی للدین خیر اداۃ اذا غاب عنکم وقت کل صلاۃ
ولم تر شمس بالنھار ولم تنر کواکب لیل حالک الظلمات