کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 3
کتاب: محدث شمارہ 32 مصنف: ڈاکٹر عبدالرحمٰن مدنی پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی،لاہور ترجمہ: فکر و نظر دورِ ابتلاء اور اسوۂ ابراہیمی آج کل پورا عالمِ اسلام، خاص کر ’’براہیمی سرزمین‘‘ ابتلاء اور محن کے ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے جو حوصلہ شکن بھی ہے اور غضبِ الٰہی کا غماز بھی۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ پوری ’غیر مسلم دنیا‘ چاروں طرف سے ’مسلم دنیا‘ کے گرد گھیرا ڈالنے میں مصروف ہے تاکہ کوئی بھی اس کی مدد کو نہ پہنچ سکے، اپنے نہ پرائے۔ اور اندر ہی اندر اس کا دم گھٹ کر رہ جائے۔ یہ نرغہ اور یہ ابتلاء آج سے تقریباً پونے چار ہزار سال پہلے بھی شروع ہوا تھا۔ ہم تو آج تقریباً ستر کروڑ ہیں۔ اس وقت صرف ایک بندۂ خلیل تھا۔ ہمیں آج اپنے تو کم از کم کندھا دینے کو آ ہی جاتے ہیں اس وقت جو اپنے تھے وہ سب سے بڑے دشمن بھی تھے۔ لیکن ہمیں شکستوں پر شکستیں آرہی ہیں اور وہ ایک فاتح کی حیثیت سے سارے سنسار پر بھاری ہو رہے تھے، ہمیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دنیا کی ہر چیز، ابر و باد ہوں یا شجر و حجر، انسان ہوں یا حیوان، پانی ہو یا آگ، ’’سبھی ہمیں کھانے اور مٹانے کو دوڑتے ہیں۔ لیکن ساری کائنات ارضی میں رب کے ایک خلیلِ جلیل کی مدد کو پہنچنے کے لئے جاندار بھی بے چین ہیں اور بے جان بھی۔ پرندے ہوں یا فرشتے، آگ ہو یا ایندھن، سبھی پہرے دار بن کر آحاضر ہوئے ہیں۔ ہم آگ و خون میں لت پت ہو رہے ہیں مگر وہاں ’نار گلزار‘ ہو رہی.... مقامِ غور ہے کہ آخر وہ ایسی کیا بات اور کیا اقتدار تھیں جن کی وجہ سے ہم دونوں ایک دوسرے سے متضاد انتہاؤں پر چلے گئے ہیں۔ وہ آگ میں پڑ کر لالہ زار اور ہم لالہ زاروں میں رہ کر ذلیل و خوار.... ہم میں سے کسی ایک پر بن جائے تو عرب و عجم کا ہر فرد مسلم تڑپ اٹھتا ہے اور مدد کو دوڑتا ہے مگر وہاں حالت یہ تھی کہ:... باپ مخالف، برادری مخالف، شہر مخالف، ملک مخالف، عراق اور مصر جیسی ’نمرودی اور فرعونی سپر طاقتیں مخالف، حضرت مخالف، سفر مخالف، گھر مخالف، در مخالف لیکن نار ہے کہ آنکھیں بچھا رہی ہے۔ دشمن ہے تو تحائف پیش کرنے پر مجبور ہے۔ آخر قصہ کیا ہے؟ بات بھائی صاف ہے: ان کا دل نہ مے خانہ تھا اور نہ بت کدہ بلکہ ان کا دل بے داغ تھا: (﴿قَلْبِ سَلِیْمٍ ﴾۳۷/۸۳) جو دوئی کے ہر تصور سے پاک تھا۔ (حَنِیْفًا ۶/۷۹)