کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 29
سیاسی تدبر اور حسن سلوک ہے! اجتماع میں کئی ایسی ممتاز علمی اور سیاسی شخصیتیں شریک تھیں جنہوں نے وسط ایشیا کے مسلمانوں کے احوال کا دیدۂ عبرت سے مشاہدہ کیا تھا۔ انہوں نے بتایا اور سب سے بڑھ کر الجزائر کے وزیرِ تعلیم نے بالکل غیر ڈپلومیسی انداز میں اس کی تصدیق کی کہ تاشقند اور بخارا کی مسجدوں میں بڈھوں ہی بڈھوں کا ایک انبوہ ہوتا ہے۔ نوجوان ایک دو صرف وہ ہوتے ہیں جنہیں روس کی حکومت باہر سے آنے والے مہمانوں کے ساتھ کر دیتی ہے یا یوں کہئے کہ پیچھے لگا دیتی ہے۔ یہ بڈھے مسلمان زائرین کو دیکھ کر زار و قطار روتے ہیں اور ایک لفظ نہیں بولتے۔ جب امام اور ترجمان سے پوچھا گیا کہ یہ کیوں رو رہے ہیں تو جواب ملا کہ ’یہ خوشی کے آنسو ہیں۔‘ دکتور بیصار سے نہ رہا گیا۔ انہوں نے جھنجھلا کر کہا: یہ خوشی سے نہیں رو رہے ہیں۔ اپنی بے بسی پر خاموش ماتم کر رہے ہیں۔ الجزائر کے وزیرِ تعلیم نے حکومت روس سے باقاعدہ احتجاج کیا کہ انہیں آزادی کے ساتھ ملنے جلنے اور بات کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ خیر اگر اسلام کے رشتہ سے کچھ بولنا رجعت پسندی ہے تو کیا چیکو سلواکیہ اور ہنگری کو محض اس لئے بھلایا جا سکتا ہے کہ وہاں لڑائی نے طول نہیں پکڑا اور ایک بھرپور وار میں کام تمام ہو گیا؟ آخر بنگلہ دیش کے سلسلہ میں روس کے کردار پر لب کشائی کا وقت کب آئے گا؟ کیا اس بات کا انتظار ہے کہ مغربی پاکستان بھی قومیتوں (نیشنلٹیز)میں بٹ جائے تب دل کی بھڑاس نکالی جائے؟ الجزائر کے اجتماع میں تو روس کو صاف صاف موردِ الزام قرار دیا گیا۔ استاد محمد عبد اللہ عنان کا ذکر پہلے آچکا ہے استاد علال فاسی نے بھی تکلف برطرف دن کو دن اور رات کو رات کہا۔ ہماری ڈپلومیسی کا شاہکار ابھی سب کو یاد ہو گا کہ جب روس اور ہندوستان کا معاہدہ ہوا تو وزارتِ خارجہ نے اعلان کیا کہ ہمارے نمائندے نے روسی لیڈروں سے بات چیت کی ہے اور ہم مطمئن ہیں کہ اس معاہدہ سے پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ رموزِ مملکت خویش خسرواں واند۔ ہاں تو رباط تیوملیلین نے ایک محترم مقام پیدا کر لیا یہاں تک کہ مغرب کی آزاد حکومت نے اسے مالی امداد سے نوازا۔ ممتاز اہل وطن اور حکومت کے مشیر اس کے جلسوں میں شرکت کو باعثِ عزت تصور کرنے لگے۔ استاد علال فاسی کو بھی باصرار دعوت نامے آئے لیکن انہوں نے برابر انکار کیا۔ کچھ عرصہ بعد امریکہ سے ایک صاحب وارد ہوئے انہوں نے ’رباط تیوملیلین‘ کو اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع بنایا تھا۔ جب وہ علال فاسی سے ملے اور ان کی رائے دریافت کی تو علال فاسی لکھتے ہیں کہ مجھے غصہ آگیا اور میں نے کہا: ہمارے ہاں دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی (جامعۃ القزوین۔ فاس)موجود ہے اسے چھوڑ کر آپ نے تیوملیلین کو اپنی توجہ کا مرکز اور بحث کا موضوع بنایا ہے۔ یہ علم کے پردے میں اسلام شمنی نہیں تو اور کیا ہے؟ اس کے بعد حکومتِ مغرب کی بھی آنکھی کھلیں اور اس نے سخت اقدام کر کے تیوملیلین کو بند