کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 28
تعلیم و تبلیغ، مسلم اقلیتوں، تارکینِ وطن اور اسلامی قانون
کی تدوین کے مسائل پر اہم مباحث
اسلامی استحکام مخلصانہ سماجی خدمات اور خالص اسلامی تعلیمات سے ہی ممکن ہے
(بسلسلہ عالم اسلام کے ممتاز علمائے کرام کے ایک کنونشن کی کارروائی)
استاد علال فاسی لکھتے ہیں کہ جب مغرب میں فرانسیسی استعمار روبہ زوال تھا تو مبشرین نے اپنے طریقہ کار میں تبدیلی کی اور ’آزادیٔ فکر اور بحث مباحثہ‘‘ کے مراکز قائم کئے۔ ان میں سے ایک مرکز، جس کو بڑی اہمیت اور شہرت حاصل ہوئی، وہ تھا جو رباط تیوملیلین(Monster de Toumliline) کہلاتا تھا۔ پیرس، امسٹر ڈم اور بون (جرمنی)میں انجمنیں قائم تیں، جو مذہبی فریضہ کے طور پر اس رباط کو مالی وسائل فراہم کرتی تھیں۔ رفتہ رفتہ مسلمان، عیسائی، یہودی، کمیونسٹ، بے دین ملحد سب اس مرکز میں جمع ہونے لگے اور کوئی موضوع ایسا نہ تھا جو ان کے دائرۂ بحث سے خارج ہو۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انسایت کے رشتہ میں بندھے ہوئے سب کے سب ’حقیقت‘ کی تلاش اور جستجو میں ہیں اور اس تلاش اور جستجو کی خاطر انہوں نے دین، اخلاق، قومی روایات کے تمام بندھن توڑ دیئے ہیں۔ بس یہی اس مرکز کے قیام کا اصل مقصد تھا کہ مسلمان تعلیم یافتہ نوجوان اپنے دین، اخلاق اور قومی روایات کے باہر حقیقت کی تلاش میں لگ جائے، بلکہ دین، اخلاق اور قومی روایات کو حقیقت کی جستجو میں سنگِ راہ سمجھنے لگے۔ ذرا خیال تو کیجئے کہ یہ حقیقت کے شیدائی اور آزادی فکر کے علمبردار مغربی مجاہدین کی جنگِ آزادی کا تماشہ دیکھتے ہیں اور ان کی حمایت میں ایک کلمہ بول کر نہیں دیت یہ بات بار بار دہرانے، یاد رکھنے اور سبق لینے کی ہے کہ ایک طرف استعمار اور تبشیر اور دوسری طرف کمیونسٹ اور بائیں بازو کی ساری جماعتیں، ان میں سے کسی نے مغرب اور شمالی افریقہ کے مسلمانوں کی جنگِ آزادی کا قولاً فعلاً کسی طرح ساتھ نہیں دیا۔ یہ ناقابلِ انکار شہادت علال فاسی کی ہے جس مغرب کی جنگِ آزادی کے قائدین میں سے ہیں۔
آخر ایسا کیوں؟ ویت نام اور الجزائر اور مغرب میں کونسا فرق ہے؟ امریکہ کے اڈے مغرب میں بھی تھے اور وہ بھی استعمار کی پشت پناہی کے لئے تھے بس فرق صرف اتنا ہے کہ الجزائر اور مغرب کے مجاہد مسلمان تھے، اور ہیں اور اسلام دشمنی استعمار تبشیر اور کمیونزم، فرانس، امریکہ اور روس سب کا مشترکہ مقصد ہے۔ اتنا کہتا چلوں کہ ہمارے ’اشتراکی کوچہ گرد‘ شاعر و افسانہ نویس اور نعروں پر جینے اور مرنے والے بے شوق اور بد ذوق طالب علم (جنہوں نے جامعہ کی لائبریری کے در و دیوار کو بے معنی اور انتہائی بد خط سیاہ اور سرخ نعروں سے داغدار بنا رکھا ہے)یہ کانگو اور ویت نام پر تو تلملا اُٹھتے ہیں۔ کیا ان میں سے کسی نے اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کیا ہے؟ وسط ایشیا کے مسلمان اگر آہ و زاری بھی نہیں کر سکتے تو یہ روس کی حکمتِ عملی ہے۔ لینن کا