کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 27
ایک جگہ یہ درج ہے:
الکفر وحدہ لیس مبیحا للدم وانما یبیحه الاعتداء
یعنی محض کافر ہونا مستوجب قتل نہیں ہے بلکہ اعتداء موجبِ قتل ہے۔
لفظ اعتداء کے معنی ظلم اور تعدی کے ہیں اور وہ مرتد ہو جانے کو بھی دین پر ظلم تصور فرماتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے لکھا ہے:
عقوبة الاعتداء علي الدين بالرده
یعنی مرتد کو جو سزا دی جاتی ہے وہ دین پر ظلم کرنے کی وجہ سے ہے۔
چنانچہ انہوں نے اس حدیث نبوی کی تفسیر فرمائی ہے جس میں حضور نے تین اشخاص کو مستوجب قتل قرار دیا ہے۔ قتل ناحق کرنے والا، شادی شدہ ہو کر زنا کرنے والا، اور دین اسلام سے مرتد ہو جانے والا۔ ان تینوں کے جرائم کو اعتداء سے تعبیر فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ قتل صرف تین صورتوں میں قرینِ عدل ہے:
الاعتداء علی النفس الاعتداء علی النظام العالم الاعتداء علی الجماعة المسلمين
یعنی کسی کی جان پر ظلم کرنا، نظام عالم یا معاشرتی نظام پر ظلم کرنا یا مسلمانوں کی جماعت پر ظلم کرنا۔
اس میں تینوں جرائم کو اعتداء سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔
فاضل مؤلف نے یہ نتیجہ اخذ فرمایا کہ جرم کے ساتھ جو اعتداء کا لفظ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک مرتد دشمنی پر نہ اتر آئے اسے قتل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہی لفظ قاتل اور زانی کے لئے بھی ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ زانی محصن اور قاتل بھی جب تک مسلمانوں کے خلاف حربی نہ ہو جائیں ان کو قتل نہ کیا جائے گا۔
غرض یہ آشفتہ بیانی صرف اس اصرار کا نتیجہ ہے جو جناب مؤلف کو مرتد کے مستوجب سزائے موت نہ ہونے پر ہے۔
اس کے علاوہ بعض دوسرے فقہاء و علماء پر اس قسم کے الزامات ہیں، جن کی تفصیل میرے رسالہ ’جرمِ ارتداد‘ میں ملاحظہ فرمائی جائے۔ جناب مؤلف کی اس تالیف کا سب سے زیادہ افسوسناک حصہ وہ ہے جس میں غلط بیانی یا الزام تراشی سے کام لیا گیا ہے، چنانچہ کتابِ زیرِ تنقید کا آخری فقرہ بھی ایک بہت بڑی غلط بیانی ہے کہ:
’’پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم الشان سنت کسی طرح بھی اس کے خلاف نہیں ہے (کہ اسلام سے پھر جانےوالے کو اس دنیا میں کوئی سزا نہ دی جائے۔)‘‘