کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 26
طور پر ان تمام اصحاب کی توہین کر ڈالی ہے کیونکہ اس ارشاد کے معنے سوا اس کے اور کچھ نہیں ہیں کہ: تمام ابطالِ ملّت قرآن اور اسلام کے سمجھنے میں قاصر رہے۔ تاہم انہوں نے ان کے اس تصورِ فہم کا یہ سبب جو بیان فرمایا ہے وہ ان حضرات کے لئے عذرِ گناہ بدتر از گناہ کے مصداق ہے۔ ص ۱۲۷ ’’رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفائے راشدین کے زمانہ میں جن مرتدین کو قتل کیا گیا۔ ان میں سے بیشتر وہ تھے جنہوں نے حکومت کے خلاف بغاوت نہیں کی۔ یہ نہیں فرمایا وہ کون کون سے اصحاب تھے اور ان کا کیا حشر ہوا؟)چنانچہ ان ایام میں یہی خیال کیا جاتا تھا کہ جو شخص اسلام سے پھر گیا وہ دشمنانِ اسلام کے ساتھ مل گیا اور تاریخ بھی اس کی تصدیق کرتی ہے جس کی وجہ سے قدمائے فقہاء کی تحریروں میں (یعنی فقہائے متاخرین و حال کی تحریروں میں نہیں)ان مرتدوں کے درمیان جنہوں نے محض مذہب تبدیل کیا اور وہ مرتدین جو ملک کے دشمن بھی ہو گئے امتیاز نہیں کیا گیا اور ایک عرصہ کے بعد یہی قانون بنا لیا گیا کہ مرتد اگر توبہ نہ کرے تو اسے واجب القتل قرار دیا جائے۔‘‘ فاضل مؤلف کتاب اب اس قانون میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں اور اس کی ضرورت یوں محسوس فرمائی کہ قتل مرتد قرآن حکیم کے صریح حکم کے خلاف ہے اور سنت سے بھی اس کی تائید نہیں ہوتی۔ گویا فقہا نے جو قانون بنایا وہ قرآن کے صریحاً خلاف ہے اور سنت کے بھی خلاف ہے۔ خلاصہ ان کے دلائل کا یہ ہے کہ وہ قرآن کو نہیں سمجھے اور احکامِ سنت کے پس منظر سے آنکھیں بند کر کے یہ قانون بنا لیا اور اس جوشِ اصلاح میں انہوں نے کم از کم چار ایسے اشخاص کے نام بتائے ہیں جن کو وہ اپنا ہم خیال تصور فرماتے ہیں۔ ان میں ایک ابن حیان اندلسی، دوسرے شیخ محمد شلتوت، تیسرے ابن الہمام اور چوتھے چلپی۔ اس عاجز نے اس مضمون کی پہلی قسط (رسالہ محدّث اشاعت ماہ رجب شعبان ۱۳۹۳؁)میں بتایا ہے کہ ان اصحاب پر یہ الزام ہے۔ ان میں سے ہر ایک نے مرتد کی سزا قتل قرار دی ہے اور اس کو عین انصاف بتایا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ علامہ محمد شلتوت کی تحریروں کو جو صراحتاً قتل مرتد کی حامی ہیں اور جس کی تفصیل انہوں نے وضاحت سے کر دی ہے، نظر انداز کر کے جناب مؤلف نے اپنی ایک تحریر میں شیخ شلتوت کی ایک اور عبارت کو غلط معنے پہنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ وہ محض ارتداد کو جرم مستلزم سزائے موت نہیں سمجھتے تھے۔ علامہ موصوف کی تفسیر میں