کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 25
کان میں گفتگو کا موقع پا گیا۔ ان دلائل کے علاوہ مختلف دلائل اوٹ پٹانگ ہیں۔ اختصار کے پیش نظر اس کی تفصیل ترک کر دی گئی ہے۔ مؤلف کتاب کا سب سے زیادہ دشوار مرحلہ فقہاء کے خلاف قتلِ مرتد کو خلافِ اسلام ثابت کرنا تھا۔ اس کے لئے سب سے پہلے انہوں نے یہ تسلیم فرمایا ہے کہ: ’’تمام فقہاء نے بالاتفاق ارتداد کی سزا قتل قرار دی ہے۔‘‘ ص ۱۲۷ باوجود اس اعتراف کے وہ خود فقہاء کے اس فیصلہ کے خلاف ہیں۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ تمام فقہاء کی آنکھوں میں دھول جھونک کر دور کی کوڑی لائے ہیں اور تحقیق احکامِ اسلامی میں اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ تمام زعمائے امت ان کے گرد راہ بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ ہے ان افراد ملت کی ایک مختصر فہرست جنہوں نے سزائے جرم ارتداد میں غلطی کی ہے: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما، حضرت عکرمہ، حضرت ایوب، حماد، محمد بن الفضل، ابو النعما، ابو موسیٰ، ابو بردہ، حمید بن بلال، قرۃ بن خالد، یحییٰ، مسدد، حضرت ابو ہریرہ، ابن عبد اللہ، ابن عتبہ، عبید اللہ، بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ، امام مالک، محمد خطیب بغدادی، ابو حنیفہ، شافعی، احمد بن حنبل، ابو بکر جصاص، ابن العربی، امام بیضاوی، جلال الدین سیوطی، ابن حیان، ابن اکثیر، خازن بغداد، جریر طبری، زمخشری، رازی، آلوسی، محمد ابراہیم البغدادی (صاحب خازن)، ابن الہمام، چلپی، علامہ شہیر سید قطب مصری، علامہ شلتوت، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، مولانا اشرف علی تھانوی، شیخ اسمٰعیل حنفی، امام ابن تیمیہ، شیخ عبد القادر جیلانی، شاہ عبد القادر، شیخ سعدی۔ یہ وہ اصحاب ہیں جن کے فیصلے کتابوں میں درج ہیں اور جو راقم الحروف کی نظر سے گزر چکے ہیں۔ ان کے علاوہ کوئی ایسا عالم دین نہ سننے میں آیا اور نہ پڑھنے میں جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کے خلاف آواز اٹھائی ہو کہ ’’من بدل دینه فاقتلوه‘‘ بدقسمتی سے پاکستان ہی کا ایک شخص کہتا ہے کہ یہ ملّا کا قول ہے۔ فاضل مؤلف نے اس بے رحمی سے حدیث کو رد نہیں فرمایا تاہم زیرِ تنقید کتاب میں اس خیال کی تائید فرمائی ہے کہ مرتد کی سزائے قتل اسلام اور قرآن کے خلاف ہے لیکن یہ کہہ کر انہوں نے غیر شعوری