کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 24
قاتلوا نہیں ہے اور لطف یہ ہے کہ اس روایت میں بھی اقتلوا ہی ہے کسی نے غلطی سے قاتلوا لکھ دیا تو وہ حجت نہیں ہے اور قاتلوا سے بھی مرتد کی سزا موت ہی ثابت ہوتی ہے۔ اس کی بریت تو کسی طرح بھی ثابت نہیں ہے۔ اب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے عہدِ خلافت کے واقعات کو لیجئے۔ سب سے پہلے جناب مؤلف نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خارجیوں کے ساتھ جنگ کا ذکر کیا ہے، جنہیں ارتداد ہی کی بنا پر قتل کیا گیا ص ۹۹ لیکن مؤلف کی تحقیق یہ ہے کہ وہ مسلمان تھے اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی انہیں مسلمان سمجھتے تھے۔ گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا انہیں قتل کرنا مرتد کا قتل کرنا نہیں بلکہ قتلِ مسلم کی نظیر ہے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ملوث قرار دیا گیا ہے اور صرف اس لئے کہ کہیں مرتد کو مجرم نہ قرار دیا جا سکے۔ دوسرا واقعہ زندیقوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے زندہ جلائے جانے کا ہے ص ۹۹ جس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ اگر میں ہوتا تو انہیں نہ جلاتا بلکہ قتل کرتا کیوں کہ حضرت کا ارشاد ہے: من بدل دینه فاقتلوه جناب مؤلف نے اس پر بھی تنقید فرمائی ہے کہ اول تو یہ روایت ہی قابلِ اعتبار نہیں اور اگر صحیح مان لی جائے تو یہ لوگ ابنِ سبا کے پیرو تھے جو نظام کو درہم برہم کرنا چاہتے تھے اس لئے قتل کئے گئے حالانکہ حضرت ابن عباس جس بنا پر قتل کا مستوجب سمجھتے تھے وہ ارتداد یا تبدیلی مذہب ہے جس کا ذکر حدیث میں ہے۔ عرض اس سے بھی ان کا واجب القتل نہ ہونا ثابت نہ ہوا۔ (مزید تفصیل کے لئے کتاب ’’جرم ارتداد‘‘ ملاحظہ فرمائیے) عہدِ حضرت علی کا ایک واقعہ یہ ہے ص ۱۰۱ کہ قبیلہ بنی نجیہ میں سے ایک گروہ مسلمان ہو گیا۔ ایک گروہ بدستور عیسائی رہا۔ ایک گروہ مسلمان ہو کر پھر مرتد ہو گیا۔ آخر الذکر سے اسلام کے لئے کہا گیا۔ اس نے انکار کیا لہٰذا ان سب کو جرمِ ارتداد کی پاداش میں قتل کر دیا گیا۔ مؤلفِ کتاب کا یہ ارشاد ہے کہ اس واقعہ سے ان لوگوں کے خیال کو کوئی تقویت نہیں پہنچتی کہ ارتداد جرم ہے محض ایک معصیت آلود خطا نہیں ہے لیکن اس واقعہ سے اس خیال کو کیسے تقویت پہنچتی ہے کہ ارتداد نہ جرم ہے نہ امرِ قابلِ تعزیر؟ ایک اور واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتد عیسائی حضرت علی کے سامنے پیش کیا گیا اس نے آپ کے کان میں کچھ کہا لیکن قتل کر دیا گیا۔ مؤلفِ کتاب فرماتے ہیں کہ وہ بھی محارب تھا یعنی محارب ہونے کے باوجود حضرت علی رضی اللہ عنہ کے