کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 22
’(قتل کرنے سے پہلے)تمہیں چاہئے تھا کہ اسے کوٹھڑی میں بند کر دیتے اور ہر روز ایک روٹی کا ٹکڑا دے دیتے، بہت ممکن تھا کہ وہ توبہ کر لیتا۔‘ (یعنی توبہ کے بغیر اس کا زندہ رہنا ممکن نہ تھا)
باوجود اس کے جناب مؤلف بغیر کسی دلیل کے اس بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ اس کو جرمِ ارتداد میں نہیں بلکہ حربی ہونے کے جرم میں قتل کیا گیا تھا۔
ایک اور واقعہ یہ ہے کہ حضرت ابو موسیٰ کے فرستادہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا کہ حاجبہ اور بکر بن وائل اور اس کی جماعت کے لوگ جو مرتد ہو گئے تھے ان کا کیا حشر ہوا، حضرت انس نے فرمایا کہ وہ سب قتل کر دیئے گئے۔ اس پر خلیفہ ثانی نے فرمایا کہ اگر ان کو زندہ گرفتار کیا جاتا تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی۔ میں ان سے کہتا کہ جس دروازے سے تم باہر آئے ہو وہ اب بھی کھلا ہے وغیرہ۔ تاہم ان کے قتل کو امیر المؤمنین نے قتل ناحق قرار نہیں دیا بلکہ قتل برحق قرار دیا کیونکہ کوئی باز پرس نہیں فرمائی۔
لیکن جناب مؤلف یہی فرماتے جا رہے ہیں کہ ان کو بھی حربی ہونے کے جرم میں قتل کیا گیا۔
عہدِ خلافت ثانیہ کا ایک واقعہ یہ ہے کہ کچھ لوگ مسجد نبوی میں بیٹھ کر مسیلمہ کی نبوت کی تصدیق کر رہے تھے۔ حضرت عمر نے حضرت عبد اللہ بن مسعود کو ان کے بارگاہِ خلافت میں پیش کرنے کا حکم دیا سب نے توبہ و استغفار کیا تو چھوڑ دیئے گئے اور ان سے وعدہ لیا گیا کہ آئندہ ایسی حرکت نہ کریں۔ ان میں سے عبد اللہ بن نواحہ کو قتل کر دیا گیا۔ یہ وہ شخص تھا جو مسیلمہ کا پیغام لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تھا اور حضور نے فرمایا تھا کہ اگر یہ بطور سفیر کے نہ آیا ہوتا تو اسے قتل کروا دیتا لیکن اس بار وہ نہ بچ سکا۔
اس کے بعد مؤلف کتاب نے عہد خلافت ثانیہ کے اس واقعہ کا سہارا پکڑا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لونڈی ام ولد کو جس نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا تھا قتل کا حکم نہیں دیا۔ بلکہ اسے ایسے شخص کے ہاتھ فروخت کر دینے کا حکم دیا جو عیسائی نہ ہو۔
لیکن اس دلیل کی بنیاد ہی غلط ہے۔ عورت کو قتل کرنے کا حکم نہیں بلکہ تعزیر کا حکم ہے۔
مرتد کی سزائے قتل کا ثبوت عہدِ خلافتِ ثالثہ سے بھی ہوتا ہے۔ مثلاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ قطعی اور واضح ارشاد ہے جسے خود جناب مؤلف نے نقل فرمایا ہے کہ:
’’جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد اس سے پھر جاتا ہے اسے قتل کر دیا جائے۔‘‘ (ص ۹۷)
اور اس پر بھی یہ ارشاد ہے کہ اس حکم میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ کن حالات میں وہ شخص واجب القتل