کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 21
تسلیم فرمایا ہے کہ ان کے خلاف خلیفہ اول نے لشکر بھیج کر ان کا خاتمہ کر دیا لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ سب باغی تھے اس لئے قتل کئے گئے۔ یعنی مرتد ہونے کی بنا پر نہیں بلکہ بغاوت کی بنا پر قتل ہوئے۔ لیکن یہ مرتد کی سزائے قتل کے خلاف کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ گویا ارتداد بغاوت کا پیش خیمہ ہے لیکن قتل نہ کیے جانے کا کوئی ثبوت اس سے بھی نہیں نکلتا۔
اس کے بعد بحوالہ ترجمہ تاریخ طبری ج ۳ (جو دراصل ج ۲ ہے)لکھا ہے کہ ایک شخص عیینہ بن حصن جو مرتد ہو گیا تھا خلیفۂ اول نے اسے معاف کر دیا لہٰذا مرتد کی سزا اسلام کے خلاف ہے۔ اول تو معاف کرنے کا لفظ ہی یہ بتاتا ہے کہ وہ مستوجبِ سزائے قتل تھا۔ پھر معاف کرنے کا سبب بھی بتایا گیا ہے جسے مؤلف کتاب نے درج نہیں فرمایا، کہ جب اس سے کہا گیا کہ:
’’اللہ کے دشمن! ایمان لانے کے بعد تو کافر ہو گیا، اس نے جواب دیا کہ میں آج تک اللہ پر ایمان ہی نہیں لایا تھا۔‘‘ (ملاحظہ ہو ترجمہ طبری)
معلوم ہوا کہ وہ مسلمان ہی نہ ہوا تھا تو مرتد ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
مؤلفِ کتاب کی انصاف پسندی ملاحظہ ہو کہ وہ اس واقعہ سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس سے عیاں ہے کہ مرتد کے لئے کوئی طے شدہ سزا نہیں ہے۔
عہدِ خلافت اولےٰ کی ان واقعات سے غایت ما فی الباب جو امر ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ارتداد اور بغاوت لازم و ملزوم ہیں لیکن یہ کسی طرح نہیں کہا جا سکتا کہ مرتد واجب القتل نہیں ہے۔
جناب مؤلف نے لکھا ہے کہ حضرت عمر نے حضرت عمرو بن العاص کو ایک مرتد شخص کے بارے میں یہ حکم لکھ کر بھیجا کہ ’جتنی بار بھی وہ توبہ کرے اسے تسلیم کر لیا جائے اور آخر میں اسلام پیش کیا جائے اگر اس کی پیروی سے انکار کرے تو اس کی گردن مار دی جائے۔‘
تعجب ہے کہ اس حکم سے بھی وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ مرتد کو قتل کا حکم نہیں ہے ورنہ بار بار اس کی توبہ قبول کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔ لیکن وہ یہ وضاحت نہ فرما سکے کہ آخر میں جو گردن کاٹنے کا حکم ہے، وہ کس جرم کی پاداش میں ہے۔
شاید اس کا جواب بن نہ پڑنے کے باعث انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس حکم کو خلاف قرآن ثابت کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون (تفصیل میری کتاب ’جرم ارتداد‘ میں ملاحظہ ہو)
عہدِ خلافت ثانیہ کا ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی کہ ایک عرب مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہو گیا تھا اسے قتل کر دیا گیا۔ اس پر خلیفہ ممدوح نے لکھا کہ: