کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 20
مؤلفِ کتاب کا ارشاد ہے کہ اسے قتل کیوں نہ کر دیا گیا۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ کون قتل کرتا؟ کیا مسیلمہ؟ پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ مسیلمہ کے ساتھی سبھی قتل ہو گئے تو اس کے قتل نہ کیے جانے کا کیا ثبوت ہے؟
ایک حیرت ناک خلاف بیانی یہ کی گئی ہے کہ پروفیسر ہیفنگ نے انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں لکھا ہے کہ:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتدوں کو معاف کر دیا۔‘‘
لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ حضور نے کبھی مرتد کو معاف کیا نہ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں یہ مذکور ہے۔ نہ نسائی، ابو داؤد اور تفسیر طبری وغیرہ میں جس کا حوالہ دیا گیا ہے، کہیں مرتد کے معاف کرنے کا ذکر ہے۔ اس کے برعکس انسائیکلو پیڈیا کے مصنفین نے بتایا ہے کہ اسلام میں مرتد مستوجبِ سزائے موت ہے۔ ہاں مرتد اگر مسلمان ہو جائے تو معاف کیا جا سکتا ہے اور یہی بتایا گیا ہے ملاحظہ ہو لفظ مرتد۔
ان عجیب و غریب اور قطعاً غیر منطقی استدلالات کے بعد جناب مولف کا ارشاد ہے کہ:
’راسخ العقیدہ یا تقلید پسند علماء کی زبردست روایات کی موجودگی میں بھی اگر احادیثِ تقویت نہیں پہنچتی کہ اگر کوئی دین سے پھر جائے تو وہ سزائے موت کا مستوجب ہے۔‘‘ (ص ۸۶)
اب ملت اسلامیہ کی بد قسمتی اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ تقریباً ڈیڑھ ہزار سال کے عرصہ میں تاریخ کی روشنی میں گہری نظر سے احادیث کا مطالعہ کرنے والا ایک شخص بھی ایسا نہیں ہوا جو اسلام کے اس نکتہ لطیف کو سمجھ سکتا۔ جس کے باب میں مؤلف کا ارشاد یہ ہے کہ قرآن حکیم کے واضح احکامات سے ثابت ہے کہ مرتد کی کوئی سزا نہیں ہے۔
احادیث کے بعد آثارِ خلفائے راشدین سے بھی انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مرتد کی سزائے قتل اسلام کے خلاف ہے۔
ان کے دلائل کا خلاصہ ملاحظہ ہو:
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتدہ عورت ام فرقہ کو قتل کا حکم دیا لیکن وہ حکم ارتداد کی بنا پر نہ تھا بلکہ وہ محاربہ تھی۔
اسی طرح مدعیانِ نبوت اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب اور ان کے ساتھیوں کو جو خلیفۂ اول نے قتل کا حکم دیا وہ بھی ارتداد کی بنا پر نہیں بلکہ بغاوت کی بنا پر تھا۔
اس کے علاوہ قبیلہ بنو اسد اور ایک شخص لقیط بن یزدی کے مرتد ہو جانے کا ذکر کیا ہے اور یہ