کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 19
ہوتا ہے کہ اس کی جان محفوظ رہے گی نہ مال۔ میں کہتا ہوں کہ چلئے یہی مان لیجئے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت قتل نہیں کرے گی؟ باقی جس کا جی چاہے، قتل کر دے حکومت باز پرس نہ کرے گی۔ لیکن یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ مرتد مستلزمِ قتل نہیں ہے۔ ایک دلیل یہ ہے کہ ہرقل نے ابو سفیان سے پوچھا تھا کہ کیا پیغمبرِ اسلام ( صلی اللہ علیہ وسلم )کے متبعین ان سے پھر جاتے اور ان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں؟ ابو سفیان کہتے ہیں کہ میں نے اس کے جواب میں یہ کہا کہ جو ان کا پیرو ہوا کبھی اس نے ان کو نہیں چھوڑا۔ فاضل مؤلف نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر مرتد کو قتل کا حکم ہوتا تو ابو سفیان کہتے کہ وہ تو قتل کر دیتے ہیں۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ مرتد کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ابو سفیان سوال از آسماں اور جواب ریسمان دیتے تو قتلِ مرتد کا حکم ثابت ہو جاتا۔ ایک دلیل یہ ہے کہ تحویلِ قبلہ کا حکم نازل ہوا تو کچھ مسلمان مرتد ہو گئے تھے لیکن کسی کو قتل نہیں کیا گیا، لہٰذا ثابت ہوا کہ مرتد کو قتل نہ کرنا چاہئے لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس حکم کے نازل ہونے پر کون مرتد ہوا جسے قتل نہیں کیا گیا؟ یہ واقعہ ۲ھ کا ہے اور ابو سفیان کی گفتگو ۶ کا واقعہ ہے جس سے عیاں ہے کہ اس دوران کوئی مرتد ہوا ہی نہ تھا۔ یہ ارتداد محض مؤلفِ کتاب کی ذہنی تخلیق ہے۔ ایک دلیل یہ ہے کہ سورہ توبہ کی آیت ۷۴ میں بعض منافقوں کا ذکر ہے جو حضور کے خلاف ناشائستہ الفاظ کہتے تھے۔ شکایت ہوئی تو قسم کھا کر مکر گئے۔ مؤلف فرماتے ہیں کہ انہیں قتل نہیں کیا گیا جس سے ثابت ہوا کہ مرتد کو قتل کا حکم نہیں ہے۔ معلوم نہیں کہ منافق کے قتل نہ کیے جانے سے کس طرح مرتد کے قتل نہ کیے جانے کی دلیل حاصل ہوتی ہے۔ ایک اور دل چسپ واقعہ یہ ہے کہ ایک مسلمان مرتد ہو کر عیسائی ہو گیا اور (قبل اس کے کہ اسے قتل کیا جاتا)وہ مر گیا۔ عیسائیوں نے اسے دفن کر دیا۔ اگلے روز اس کی لاش قبر کے باہر پڑی ہوئی ملی۔ یہ واقعہ تین بار ہوا۔ عیسائیوں کو یہ شبہ تھا کہ یہ کام مسلمانوں کا ہے۔ یہ واقعہ بجائے خود اس امر کی دلیل ہے کہ مرتد واجب القتل ہے جس کو عیسائی بھی جانتے تھے کہ مسلمانوں کے نزدیک مرتد ہونا کتنا بڑا جرم ہے کہ اگر کوئی سزا سے بچ بھی جائے تو متے دم تک مسلمان اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ اس واقعہ سے یہ نتیجہ اخذ فرمانا کہ مرتد مستوجب سزا نہیں ہے بجز خوش فہمی کے اور کیا ہے۔ ایک واقعہ یہ ہے کہ بادشاہِ یمامہ نے دو شخصوں مجاعہ اور رجال کو خدمتِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ پیغام دے کر بھیجا کہ اگر آپ اس کو حکومت کا جانشیں بنا لیں تو وہ مسلمان ہو جائے گا۔ یہ دونوں اشخاص حضور کی خدمت میں آکر مسلمان ہو گئے۔ رجال تو یہیں رہ گیا اور مجاعہ واپس جا کر مرتد ہو گیا اور مسیلمہ کے ساتھ مل گیا۔