کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 18
پروفیسر منظور احسن عباسیؔ قسط (۴) آخری سزائے مرتد پر چند مغالطے اور ان کا دفعیہ قارئین جناب جسٹس ایس اے رحمان صاحب کی انگریزی تصنیف Punishment of Apostacy in Islam کے چیدہ چیدہ مقامات پر تبصرہ محدّث کے صفحات پر ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ حالیہ شمارہ میں آخری قسط پیشِ خدمت ہے، جس کے ساتھ یہ خوشخبری بھی ہے کہ اسی موضوع پر جناب پروفیسر منظور احسن عباسی کی مفصل کتاب ’’جرام ارتداد‘‘ بھی عنقریب منظر عام پر آرہی ہے۔ (ان شاء اللہ) (ادارہ) یہ کتاب اس قسم کے کمزور اور بے تعلق دلائل سے بھری پڑی ہے جس کی تفصیل کتاب ’جرمِ ارتداد‘ جو زیرِ طبع ہے، میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے مثلاً ایک بدو کا واقعہ کہ اس نے حضور کی بیعت کی، اس کے بعد اسے اتفاقاً بخار ہو گیا اس نے سمجھا کہ شاید بیعت ہی کی وجہ سے ایسا ہوا لہٰذا وہ بیعت توڑنے کے لئے حضور کی خدمت میں آیا اور کئی بار درخواست کرنے کے باوجود اس کی بیعت حضور نے نہیں توڑی اور جب (بغیر فسخ بیعت چلا گیا)تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ مدینہ آگ کی بھٹی کی مانند ہے جو کثافت کو دور کر دیتا ہے۔ مدعا یہ تھا کہ یہ شخص بھی کثافت لے کر آیا لیکن شہر مدینہ کی برکت نے اس کی کثافت دور کر دی۔ مولفِ کتاب کا کہنا یہ ہے کہ اسے قتل کیوں نہ کیا گیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ مرتد کو قتل نہیں کیا جا سکتا یعنی اس کے باوجود کہ اس کے دل کی کثافت دور ہو گئی اس کو قتل کر دینا چاہئے تھا۔ ایک دلیل یہ ہے کہ صلح حدیبیہ میں ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان مرتد ہوکر مکہ میں پناہ لے تو اُسے اہلِ مکہ واپس نہ کریں گے۔ اس سے ثات ہوتا ہے کہ مرتد کو قتل کیا جائے گا حالانکہ حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ اگر وہ مکہ میں پناہ نہ لیتا تو قتل کر دیا جاتا۔ ایک دلیل یہ ہے کہ قبیلہ لحم کے ساتھ معاہدہ میں یہ تھا کہ اگر ان میں سے کوئی مسلمان ہونے کے بعد اسلام سے پھر جائے گا تو خدا اور رسول اس کی جان و مال کے ذمہ دار نہ ہوں گے۔ مؤلفِ کتاب کا ارشاد ہے کہ اس سے ظاہر نہیں ہوتا کہ مرتد کی سزا قتل ہے بلکہ صرف یہ ثابت