کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 17
نہیں کرتے۔ اس لئے ایسے بیماروں کو قرآن نے موتیٰ کہا ہے:
﴿اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی﴾ (سورہ نمل ع ۶) بے شک آپ مردوں کی باتیں نہیں سنا سکتے
گویا یہ بھی توفیق الٰہی سے بالکلیہ محروم ہیں۔ جیسے ایک مردہ۔
ضیق صدر اور حرج
ضیق صرف تنگی کو کہتے ہیں۔ حرج شدید ضیق (تنگی)کا نام ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس نے بنو بکر کے ایک شخص سے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بنو کنانہ کے ایک فرد سے پوچھا کہ، حرجہ کسے کہتے ہیں؟ گھنے جنگل والی وادی جس میں اتنی کثرت سے درخت ہوں کہ اس میں جانے کے لئے راہ نہ مل سکے، نہ راعی کو نہ جنگلی جانور کو۔ اس پر حضرت ابن عباس اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
کَذٰلِکَ قَلْبُ الْکَافِرِ (شفاء العلیل ص ۱۰۶) کافر کے دل کی یہی کیفیت ہے۔
کہ اس میں خیر کا گزر ممکن نہیں رہتا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ جب وہ اللہ کا ذکر سنتا ہے اس کا دل گھٹنے لگتا ہے۔ اگر بتوں کی بات آجائے تو کشادہ ہو جاتا ہے۔
اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کو کسی بد نصیب کی تنگی صدر مطلوب ہوتی ہے تو اس کو اتنا تنگ کرتا ہے کہ حق اس میں داخل نہیں ہو سکتا اس لئے وہاں مڑ جاتا ہے۔ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ کچھ لوگوں کے سامنے حق کی بات آجائے تو یوں دب جاتے ہیں جیسے ان پر پہاڑ آپڑا ہو۔ بہرحال حق کے سلسلے میں ’ضیق صدر‘ کامریض حد درہ تنگ دل ہوتا ہے۔ اس لئے ’کتاب و سنت‘ سے کسبِ فیض کی کشش سے دور جا پڑتا ہے۔
امساکِ نور
یہی ’امساکِ نور‘ بھی ہے کہ شرح صدر کی دولت سے محروم ہو جاتا ہے۔ اسلام میں قدم رکھتے ہوئے ہزاروں تاریک اور ڈراؤنے خواب آنے لگتے ہیں کہ خدا جانے کیا ہے؟
الغرض: خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ کے مفہوم کے لئے قرآن حمید نے جو مختلف اسلوبِ بیان اختیار کیا ہے۔ اوپر کی سطور میں اسی کا مختصر سا خاکہ پیش کر دیا گیا ہے جس سے ختم وغیرہ کی نوعیت محرکات، پس منظر، اسباب و داعی کی تفصیل بھی آگئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
ہدایت اور نور کی جو مشعلیں حق تعالیٰ نے روشن کی ہیں جو لوگ اغراضِ سیئہ کی بنا پر ان کی روشنی سے بدکتے ہیں کتراتے اور بھاگتے ہیں۔ خدا بھی ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور اپنی ’توفیق‘ کی خصوصی عنایات بھی ان سے چھین لیتا ہے کہ یونہی تو یونہی سہی۔ نُوَلِّه مَا تَوَلّٰي اس کے یہ معنے نہیں کہ خدا ان کے سامنے سے دروازہ بند کر دیتا ہے کہ وہ اندر نہ داخل ہوں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ جو دروازہ وہ خود اپنے سامنے سے بند کر دیتے ہیں، خدا تعالیٰ جبراً وہ ان پر مکرر نہیں کھولتا یا کھول کر زبردستی ان کو اپنی طرف گھسیٹنے کی کوشش نہیں فرماتا کیونکہ سودا اختیار کا ہے۔ ٹھونسنے کی بات نہیں ہے۔ (مسلسل)