کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 16
اس لئے ہم نے بھی انہیں رہنے دیا جسے خدا جامد رہنے دے اسے کون حرکت دے سکا ہے۔ اس آیت میں ان کی اسی محرومی اور کیفیت کا ذکر ہے۔ ﴿وَلٰکِنْ کَرِہَ اللّٰہُ انْبِعَاثَھُمْ فَثَبَّھُمْ﴾ (التوبہ۔ ع۷) لیکن اللہ نے ان کا اُٹھنا پسند نہ کیا سو ان کو روک دیا۔ گویا کہ جو وہ چاہتے تھے، خدا نے اس کا اہتمام کر دیا۔ تزیین عمدہ، آراستہ اور حسیں کر دکھانا، تزئین ہے۔ کام بد ہو، پر انسان اسے کمال، خوبی اور جوھر لاجواب تصور کرنے لگتا ہے تو ظاہر ہے اس کے لئے اپنے کردار یا زندگی پر نظر ثانی کرنا یا اس کا احتساب کرنا ممکن نہیں رہتا۔ یہ سٹیج کسی کی آخرت، انجام اور مستقبل کو غارت کرنے کے لئے حد درجہ مہلک ثابت ہوتی ہے دراصل یہ کیفیت: ﴿نُوَلِّه مَا تَوَلّٰي ﴾(نساء۔ ع۱۷) جو (راستہ)اس نے اختیار کر لیا ہے اسی راستہ پر ہم بھی اس کو چلائے جائیں گے۔ کی ہو بہو تصویر ہے۔ جسے انہوں نے ’اچھا‘ سمجھا اسی میں ان کو مگن رہنے دیا۔ عدمِ تطہیر قلوب دل سے کفر و شرک اور بد عملی کی گندگی دور کرنے کے لئے حق تعالیٰ نے ’حکمت عملی‘ تو بتا دی ہے۔ لیکن دھونے کی زحمت انسان کو خود ہی کرنی ہے۔ اگر کوئی چاہے کہ یہ کام بھی خدا خود ہی کرے تو یہ بہت بڑی جسارت ہے۔ اس لئے فرمایا: جو منافق ہیں جھوٹ کے دل دادہ، تحریف کتاب اللہ کے عادی، صرف مطلب اور گرد کی بات سے واسطہ رکھنے والے ہیں۔ ﴿اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰہُ اَنْ یُطَھِّرَ قُلُوْبَھُمْ﴾ (پ۶. المائدہ. ع۶) یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں کو پاک نہیں کیا۔ یہ عدم تطہیر دراصل ان کی بد عملی اور بد پرستی کا نتیجہ ہے اس کے معنے دلوں کو گندہ کرنا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ اگر وہ خود پاک نہیں کرتے تو پھر نہ سہی، والی بات ہے۔ اماتۃ القلوب دلوں کو مردہ کہنے کے یہ معنی ہیں کہ وہ حق کی خواہش نہیں رکھتے۔ باطل سے نفرت اور حق و باطل میں امتیاز