کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 15
اگر بایں مسلمانی کہ دارم! مرا از کعبہ مے راند حق او ست
(ارمضانِ حجاز ص ۱۰۰)
ازاغۃ قلوب
حق سے باطل کی طرف اور ہدایت سے ضلالت کی جانب مرعوبانہ جھکاؤ کا نام ’ازاغت‘ ہے۔ جب کوئی اللہ کے بجائے غیر اللہ سے مرعوب ہوتا ہے اور پھر اس کے حضور جھک رہتا ہے تو کچھ مدت کے بعد وہ اسی سمت کا ہو جاتا ہے اس لئے آپ نے ہر باطل تحریک، چکا چوند اور اس کے پجاریوں کا مشاہدہ کیا ہو گا کہ وہ جس قدر باطل پر ہوتے ہیں اتنے ہی اس پر پختہ بھی ہوتے ہیں۔ قرآن نے اس کو یوں بیان کیا ہے۔
﴿فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ﴾
جب وہ (خود غلط سمت کو)جھک گئے تو اللہ نے بھی ان کے دلوں کو اسی طرف جھکا دیا۔
خذلان
وقت پر ساتھ چھوڑ دینے کو خذلان کہتے ہیں۔ یہاں مراد یہ ہے کہ:
اللہ تعالیٰ کسی سے توفیق سلب کر کے اس کو اپنے نفس وہوےٰ کے حوالے کر دے۔ ظاہر ہے کہ یہ حد درجہ خسارے کا سودا ہے۔ کیونکہ جب انسان خدا کے بجائے دوسروں کی رہنمائی اور آسروں کی ٹوہ میں پڑ جاتا ہے تو خدا کو غیرت آتی ہے۔ اس لئے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے تاکہ وہ اس کا انجام بھی دیکھ لے۔
﴿وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ ﴾ (آل عمران۔ ع۱۷)
اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرے۔ میں اسی کا بیان ہے۔
ارکاس
رکس کے معنے کسی چیز کو اس کے سر کے بل الٹا کر دینا یا اس کے اول سرے کو موڑ کر پچھلے سرے کے ساتھ ملا دینا ہے۔ یعنی فلاں گروہ جو بظاہر مسلمان بن رہا تھا واپس جا کر کافروں میں جا ملے۔
؎ پہنچی وہاں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
گویا کہ یہ لوگ گو ہم میں تھے، پریوں تھے جیسے ’سیدھے برتنوں میں اوندھا اور الٹا لوٹا۔‘ اس لئے تا آخر خالی رہے اور رہیں گے۔ کیوں کہ ان کے دل ’سچی طلب اور جذبہ اخلاص‘ سے بالکل محروم ہیں۔ اس لئے ان سے ’خیر‘ کی توقع کرنا عبث ہے۔
تثبیط:اس کے معنے روک دینے اور ہٹا دینے کے ہیں، چونکہ وہ دل سے نکلنا نہیں چاہتے تھے