کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 13
لگے ہی نہیں۔ بس وہی ’صد‘ جس کا اوپر ذکر ہوا: ﴿رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓی اَمْوَالِھِمْ وَاشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ﴾ (یونس۔ع۹) الٰہی! ان کے مالوں پر پانی پھیر دے اور ان کے دلوں کو (اور)سخت کر دے۔ یعنی اس مالی زیاں کی وجہ سے بھی ان کے دل ’موم‘ نہ ہوں۔ کیونکہ یہ بظاہر قبولِ حق کی ایک شکل محسوس ہوتی ہے، تاہم حقیقت میں اب بھی اس کا محرک مفادِ عاجلہ کے چرکے ہیں۔ رضاءِ الٰہی نہیں۔ اس لئے اب بھی پرنالہ اپنی جگہ پر ہے، مگر دیکھنے والے اس سے دھوکا کھا سکتے ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ اس کو سخت کر کے اس پر ٹھپہ ہی لگا دے کہ یہ ظاہری فریب کی شکل بھی پیدا نہ ہونے پائے۔ تقسیہ: تقسیہ سے مراد پتھر جیسی سختی ہے اس کی ایک قراءت ’قسیّہ‘ بھی ہے یعنی اغراضِ سیئہ کی ملاوٹ پر مبنی سختی ہو۔ درھم قسية اس وقت اس وقت کہتے ہیں جب اس میں کھوٹ ملا ہو گویا کہ یہ ’اشداء علی الکفار‘ کے قبیل سے نہیں ہوتی کیونکہ وہ مبنی برحق ہوتی ہے۔ وہ صلابت اور سختی استقامت علی الحق کی آئینہ دار ہوتی ہے لیکن تقسیہ کی صلابت ایسی ’سنگدلی‘ کی آئینہ دار ہوتی ہے جو حق سے بے پرواہ رہنے کے لئے مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ضلال بعید گمراہی ایک یہ ہے کہ راہ بھٹک جائے۔ دوسری یہ کہ غلط راہوں میں ہی کھو جائے۔ اگر ابتدائی درجہ کی ہے تو صبح کا بھولا شام کو واپس آسکتا ہے۔ اگر یہ انتہائی درجہ کی ہے تو واپس پلٹنے کی امید باقی نہیں رہتی۔ انہیں میں کھپ جاتا ہے یا آفات ناگہانی کی نذر ہو جاتا ہے۔ ضلال بعید سے مراد یہی دور کی گمراہی ہے کہ انسان کے رجوع الی الحق کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔ یہ بیماری عموماً سیاسی کھلنڈروں کو لاحق ہوتی ہے یا دین پسندوں کو۔ بہرحال قرآن میں ان ’ضلّال‘ کے لئے عنوان نصاریٰ ہے۔ آپ دیکھ لیجئے کہ علم و فن میں اتنے اونچے چلے جانے کے باوجود حق کی طرف رجوع کرنے یا اس کے سمجھنے کی توفیق سے بالکلیہ محروم ہیں۔ اغفال غفلت اس سہو کو کہتے ہیں جو تحفظ اور احتیاط کی کمی کے نتیجہ کے طور پر طاری ہوتا ہے۔ جب اس پر اصرار جاری رہے تو یہ سہو حق سے مجرمانہ بے نیازی میں تبدیل ہو جاتا ہے جہاں ’احساسِ غفلت‘ بھی باقی نہیں رہتا۔ اسی کو ’اغفال‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔