کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 12
دوسرے کو بھی قریب نہ آنے دے، خدا نے اسے ’فراعنہ‘ کی ایک صفت قرار دیا ہے۔ ﴿زُیِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوْٓءُ عَمَلِه وَصُدَّ عَنِ السَّبِیْلِ﴾ (مومن: ع۴) یوں عموماً مشنری ٹائپ کے لوگ ہوتے ہیں جو حق کی راہ مارنے کو کارِ خیر یا سیاسی حکمت عملی تصور کرتے ہیں۔ صرف اس کے معنے ہیں ’پھیر دینا‘ عموماً بطور نتیجہ کے قرآن میں اس کا ذکر ہے یعنی راہِ حق سے ان کے انحراف اور انصراف پر اصرار کا نتیجہ یہ نکلا کہ: اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کے رخ بھی ادھر کو ہی موڑ دیئے جدھر ان کے اغراضِ سیئہ کا رُخ تھا یعنی اب ان کے دل میں احساس زیاں کی خلش بھی جاتی رہتی ہے: ﴿وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلٰي بَعْضٍ ھَلْ يَرٰكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَھُوْنَ ﴾ اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان میں سے ایک طرف ایک دیکھنے لگتا ہے پھر (یہ کہہ کر کہ)کہیں تم کو کوئی دیکھتا تو نہیں (اٹھ کر)چل دیتے ہیں (یہ لوگ پیغمبر کی مجلس سے کیا پھرے)اللہ نے ان کے دلوں کو (دین حق سے)پھیر دیا۔ اس لئے کہ یہ لوگ ایسے ہیں کہ ان کو مطلق سمجھ نہیں ہے۔ امام ابن القیم فرماتے ہیں، صلاحیت اور قابلیت کا انحصار دو امور پر ہے۔ حسن فہم اور حسن قصد یہاں دونوں غائب ہیں۔ سمجھ بالکل غائب اور قصد برا ہی برا۔ سماع خاص سے محرومی کے اسباب بھی قرآن نے خود بیان فرمائے ہیں۔ کبر، تولّی اور اعراضِ کبر سمجھنے سے مانع ہے، تولّی جذبہ انقیاد اور اطاعت کے لئے مہلک ہے اور اعراض عطاء الٰہی سے محرومی کا باعث ہے۔ صرف یوں تصور کر لیجئے کہ ایک شخص موٹر، گاڑی یا جہاز سٹارٹ تو کرتا ہے مگر راہ پر نہیں، بلکہ ادھر اُدھر آس پاس کے گڑھوں کی طرف، اس لئے موٹر کا ادھر کو دوڑ پڑنا اس کا ’صرف‘ اور قدرتی نتیجہ ہے کہ یوں تو یوں سہی! الغرض بری سمجھ اور ردی قصد، ضلالت اور شقاوت کا بنیادی نسخہ ہے۔ الشد والتقسیہ الشد کے معنے ’سخت کر دینے‘ کے ہیں یعنی اے اللہ! ان کو یوں پتھر بنا دے کہ اس کو جونک