کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 11
سنائی دے نہ اسے قبول کرے بلکہ اپنی کہے اور اپنی ہی مرضی کرے۔ اس کو ’صدائے حق‘ سے یوں وحشت ہوتی ہے جیسے اس سے اس کو اپنے کان پھٹ جانے کا اندیشہ ہو۔
﴿یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَھُمْ فِیْ اٰذَانِھِمْ مِّنَ الْصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ ﴾(پ۱ ع۳)
موت کے ڈر سے مارے کڑک کے انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونسے لیتے ہیں۔
اس آیت میں ان کی اسی ’وحشت‘ اور حق سے ان کی اسی اجنبیت کا ذکر ہے۔ جہاں کیفیت یہ ہو وہاں قبولِ حق کی استعداد ختم ہو جاتی ہے۔
بکم
پیدائشی گونگے گو بکم کہتے ہیں۔ اخرس عام ہے۔ پیدائشی ہو یا بعد میں کسی حادثے کا نتیجہ ہو سب کو اخرس کہتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ بکم القلب اور بکم اللسان۔ دل کا گونگا اور زبان کا گونگا۔ دل کا گونگا (بکم)زبان کے گونگے سے سخت ہے۔ دل کے گونگے ہونے کے معنے ہیں کہ کلمہ حق کے قبول کرنے کی استعداد ہی نہ رہے۔
عُمٰی
اندھے پن کو عمی کہتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ آنکھوں کا اندھا اور دل کا اندھا۔ یہاں یہی دل کے اندھے مراد ہیں کہ ان میں بصیرت کا فقدان ہے۔ اس لئے آنکھیں جو دیکھتی ہیں وہ اسے جچتی ہی نہیں۔
﴿لَا تَعْمَیْ الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَیْ الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ﴾ (حج رکوع ۵)
(سر کی)آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں۔ سینہ کا مکیں دل ہی اندھا ہو گیا ہے۔
اس آیت میں اسی حقیقت کا ذکر ہے۔ یہ دل کی بینائی، سیاہ کرتوتوں کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہے۔ سیاہ اغراض اور سیاہ اعمال، بہرحال دل کی دنیا کے لئے حد درجہ مہلک ہیں۔
کان، آنکھ اور دل، علم و آگہی کے اصل ذرائع ہیں۔ کوئی شخص اگر ان کو اپنی بدعملی کے ذریعے خود ہی پھوڑ دے تو وہ جانے، کوئی کیا کرے؟ خدا نے ان کی اس بد نصیبی کا یوں ذکر کیا ہے۔
﴿لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصَرُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا ﴾(الاعراف۔ ع ۲۳)
ان کے پاس دل (تو)ہیں، پر غور و فکر کے لئے نہیں، آنکھیں (تو)ہیں پر حقیقت بینی کے لئے نہیں، کان (تو)ہیں پر شنیدِ حق کے لئے نہیں۔
صدّ: رکنے اور روکنے کو کہتے ہی۔ یہ بدنصیبی کی انتہا ہے کہ خود بھی خیر کے قریب وجائے اور