کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 10
ہیں جس سے کسی عضو کو کس کر اور جکڑ کر اس کے وسط میں باندھ دیا جاتا ہے۔
وہ دلچسپیاں، مصلحتیں، اغراض اور رسومات ہیں جن میں ڈوب کر انسان راہِ حق کی طر ف پلٹنے اور رجوع کرنے کی توفیق سے محروم ہو جاتا ہے۔ جیسے کسی نے اس کو جکڑ کر باندھ یا قید کر دیا ہو بس دل کی اس ’مانع عن الایمان کیفیت یا محرومی‘ کا نام ’غّل‘ ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ:
حق کی بات، ذکر خیر، اعمال صالحہ، ایمان، کتاب اور سنت کے نام سے اس بیمار کا دل، منقبض (بھنچے)ہونے لگتا ہے جیسے منوں بھار اس کے دل پر کسی نے رکھ دیا ہو یا جیسے اس کا گلا کسی نے دبا دیا ہو۔ بہرحال ختم (مہر)جیسی کیفیت ہے جو ختم سے چار درجے آگے ہے۔
سدّ
دیوار، آڑ اور رخنہ بند کرنے کو سدّ کہتے ہیں۔ یہاں وہ خدا فراموش شغف، کوتاہ بینی اور کم فہمی مراد ہے جن کی وجہ سے انسان نہ ماضی کے عبرت آموز واقعات سے کوئی درس لیتا ہے اور نہ حالیہ طرزِ زندگی کے عواقب اور انجام پر غور کرنے کی توفیق پاتا ہے۔ اس لئے اس کو کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ سورۂ یٰسین میں اس کو یوں بیان فرمایا ہے۔
﴿وَجَعَلْنَا مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِھِمْ سَدًّا فَاَغْشَيْنٰھُمْ فَھُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ ﴾
اور ہم نے ايك ديوار (تو)ان كے آگے بنائی اور ايك ديوار ان كے پیچھے اور اوپر سے دیا ان کو ڈھانک، تو (اب)یہ دیکھ ہی نہیں سکتے۔
قفل
تالے کو کہتے ہیں۔ دل گویا دروازہ ہے۔ حق کے لئے اس کے انشراح اور تدبر کے فقدان کو قتل (تالے)سے تعبیر کیا گیا ہے:
﴿اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا﴾ (پ۲۶. محمد. ع۳)
یعنی کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا (ان کے)دلوں پر تالے (لگے)ہیں۔
اس آیت میں اسی کیفیت کا ذِکر ہے۔ دروازہ کا بند ہونا بجائے خود بہت بڑا فتنہ ہے جب اس کے ساتھ اس کو مقفل بھی کر دیا جائے تو اس کے کھلنے کی امید باقی کیا رہ جائے گی۔ ہاں اس کی چابی خود انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنی ناکردنیوں کے ہاتھ اس نے وہ ’چابی‘ بھی کھو دی ہے جس سے اسے کھولا جا سکتا تھا۔
صمم:حاسئہ سماعت کے ضائع ہو جانے کا نام ’صمم‘ ہے۔ یہاں مراد ایسا شخص ہے جسے آوازۂ حق