کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 9
کررہے ہیں ، ان کی مثال ایسے بیٹوں کی ہے جو اپنی ماں کی تذلیل کو اپنا حق قرار دینے کا مطالبہ کررہے ہوں ۔ ذاتِ رسالت مآب سے آپ کے اُمتیوں کاتعلق ان کے ماں ، باپ حتیٰ کہ ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ ہے۔ اسی بنا پر ان تما م چیزوں پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کو فوقیت دینے کو شرطِ ایمان ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ بد بخت لوگ دراصل نبی ٔ رحمت کی لائی رہنمائی سے محرومی کا غصہ نکالنا چاہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانیت کی طرف رحمتہ للعالمین کو مبعوث کیا تھا اور سب کو ان کا اُمتی بنایا تھا، لیکن ان کی شامت ِاعمال کہ یہ سعادت ِایمان سے محروم رہے۔ مستند احادیث کی روسے دیگر انبیا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خصوصیت عطا کی گئی ہے کہ آپ کو جملہ انسانیت تک رہتی دنیا کے لئے مبعوث کیا گیا ہے اور کچھ لوگوں کو اگر آپ کی اُمت ِاجابت میں قبول ہونے کو سعادت میسر نہیں آئی، تو بہر حال آپ کی اُمت ِدعوت میں ضرور شامل ہیں ۔ ایسے اُمتیوں کا اللہ کی منتخب کردہ محبوب ہستی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنا ایسا سیاہ کارنامہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے!! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت وشفقت آئیے نبی رحمت کی اپنی اُمت کے لئے دعاؤں اور ربّ کے حضور فریادوں کے تذکرے تازہ کریں ، تاکہ ہمیں اپنے ساتھ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان کا معمولی اندازہ ہوسکے اور ہم ان کے حق کا اِدراک کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری کو پہچان سکیں ۔ احادیث میں بیان ہونے والے یہ محبت بھرے تذکرے بڑے ایمان افروز ہیں : ٭ سب سے پہلے توان لوگوں کے لئے آپ کی رحمت ومودّت کا تذکرہ جنہیں اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل نہیں ہوا اور ان کی فکر مندی میں اپنی ذات کو گھلانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وطیرہ بن چکا تھا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو تنبیہ کرتے ہوئے یہ فرمایا: ﴿لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَنْ لاَّ یَکُوْنُوْا مُؤمِنِیْنَ ٭ إِنْ نَّشَأ نُنَزِّلْ عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَائِ آیَۃً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُہُمْ لَہَا خَاضِعِیْنَ﴾ (الشعراء: ۳،۴) ’’شاید کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو اس بنا پر ہلاک نہ کربیٹھیں کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔ تیرا