کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 8
اُچھال سکیں ۔
یوں تو انسانی حقوق کے چارٹر کا یہ مسئلہ ہر صاحب ِدانش کے ہاں معروف ہے کہ اس کی غیرمحدود تعمیم اور متزلزل تفصیل اس کے میزانِ عدل قرار پانے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، مزید برآں مغربی ممالک میں متداول بے شمار قوانین، عدالتی فیصلے اور زیر عمل تصورات بھی اس استدلال کی راہ میں واضح رکاوٹ ہیں جن کی نشاندہی میں اپنے سابقہ مضمون میں تفصیل سے کرچکا ہوں ۔ لیکن ان تمام باتوں سے قطع نظراس حرکت کا تجریدی مطالعہ اس نفسیاتی کیفیت کی ضرور غمازی کرتا ہے جس کا مغربی میڈیا کے اربابِ اختیار شکار ہیں ۔ ایک شریف النفس، معتدل ومتوازن اور متین و حلیم شخصیت سے یہ توقع کس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی عام فرد کی توہین کو اپنا حق باور کرنے کی سنگین غلطی کا شکا رہوگا۔چہ جائیکہ کسی عام فرد کی بجائے اس عظیم المرتبت ہستی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کا ارتکاب کیا جائے جو ڈیڑھ ارب آبادی کی محبوب ومقدس ترین شخصیت ہے۔پھر یہ محترم ہستی ایسی نہیں جو صرف مسلمانوں کے ہاں متبرک و مقدس ہو بلکہ تاریخ عالم کی یہ واحد ہستی ہے جس کی تعریف میں ازل سے اَبد تک ہردور کے نامور مشاہیر، عوام اور خواص رطب اللسان رہے ہیں ۔ ان کے اُسوئہ حسنہ نے ہر شعبۂ حیات کے ماہرین کو ایسا چیلنج دیا ہے جس کا وہ اعتراف کرتے ہوئے اپنے عاجزی ودرماندگی کا برملا اظہار کرتے ہیں ۔ اس مقبولیت اور شانِ محمودیت کی وجہ اللہ تعالیٰ کا ذاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ قرآنی وعدہ ہے کہ ہم نے تیرا ذکر بلند کردیا اور تیرا دشمن ضرور خاکسار ہوکر رہے گا۔
مقامِ تفکر ہے کہ مغرب کے اربابِ ابلاغ کس قسم کے حق پر اصرار کرکے انسانیت کو پامال کرنے پر تلے بیٹھے ہیں ۔ کونسی نفسیاتی تسکین ہے جو اُنہیں اس مکروہ عمل پر اُکساتی اور اپنے عملِ بد کے اِصرار پر آمادہ کرتی ہے۔ اس ذہنی غلاظت کا ادراک کرنے سے ہمارے ذہن قاصرہیں جسے بظاہر انسانی حق کا نام دے کر اپنے نفسیاتی تشنج کو تسکین دینے کی راہ تلاش کی جارہی ہے اور دنیا کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ چند مکروہ فکر لوگوں کے فکری افلاس کو قبو لِ عام عطا کرکے اس دور کے انسان کو شرفِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرمندگی سے دوچار کردے!!
یہ بد باطن لوگ جو بڑی ڈھٹائی سے نبی ٔرحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا حق حاصل کرنے پر اِصرار