کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 7
فتویٰ اور اس کی نیوکلیئر طاقت بھی خاکوں کی تائید کے ساتھ ساتھ ان کا ہدفِ ملامت بنی رہی۔ ان چیزوں سے بھی مغربی میڈیا سے صہیونی اشتراک کا بخوبی علم ہوتا ہے۔
یہ خاکے ان دو سالوں میں گاہے بگاہے (فروری ۲۰۰۶ء، اگست ۲۰۰۷ء وغیرہ) شائع ہوتے رہے لیکن رواں سال میں ۱۳/فروری کو ایک بار نئی منصوبہ بندی اور اشتراک کے ساتھ بیک وقت سکنڈے نیویا کے ۱۷/ اخبارات نے اُنہی خاکوں کوایک بار پھر شائع کردیا۔ اگر حالیہ واقعہ کی پیش کردہ توجیہ کو ملحوظ رکھا جائے تو اب بھی یہ اقدام ایک منظم سازش سے کم قرار نہیں پاتا۔ حالیہ اقدام کی وجہ یہ پیش کی گئی ہے کہ ۱۱ /فروری ۲۰۰۸ء بروز منگل کو ایسے دو مراکشی مسلمانوں کو پولیس نے گرفتار کیا تھا جنہوں نے ۷۳ سالہ ملعون کارٹونسٹ ویسٹر گارڈ[1] کے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی۔ چنانچہ صرف دو روز کے اندر اندر حکومت پر دباؤ بڑھانے اور کارٹونسٹ سے اظہارِ یک جہتی کے لئے یہ مذموم اقدام کیا گیا۔ اس کے بعد سے ان خاکوں کی اشاعت کا سلسلہ بڑے پیمانے پر جاری ہے اور مختلف ویب سائٹس پر بھی یہ ہر وقت ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں ۔ پاکستانی حکومت نے اس نوعیت کی ایک مرکزی ویب سائٹ ’یوٹیوب‘ کو پہلے پہل بند کردیا تھا لیکن چند روز بعد اس کو بھی کھول دیا گیا اور تادمِ تحریر یہ ویب سائٹ لوگوں کو اہل یورپ کے خبث ِباطن اور تعصب وجارحیت کی دعوتِ نظارہ دے رہی ہے۔
راقم دو برس قبل اس موضوع پر ایک تفصیلی تحقیق قلم بند کرچکا ہے، جس میں توہین آمیز خاکوں کا اسلام اور عصری قوانین کے تناظر میں نکات وار پیش جائزہ لیا گیا تھا۔ شائقین اس مضمون کا مطالعہ ’محدث‘ کے شمارئہ مارچ ۲۰۰۶ء میں کرسکتے ہیں ۔ سردست اس حرکت کا مختصر نفسیاتی تجزیہ مقصود ہے۔ اہل مغرب کے استدلال کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کا منظور کردہ اظہارِ رائے کا حق اُنہیں یہ گنجائش اور استحقاق دیتا ہے کہ وہ ذاتِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر کیچڑ
[1] یہ وہی نامراد کارٹونسٹ ہے جس نے دوبرس قبل یہ خاکے بنائے تھے، اس کی ہلاکت کا شہرہ ایک افواہ سے زیادہ نہیں۔ اس سلسلے میں لاہور کے نوجوان عامر چیمہ شہید کا کردار یہ رہا کہ اُنہوں نے جرمنی کے اخبارمیں یہ توہین آمیز خاکے شائع دیکھ کراخبارکے ایڈیٹرکو اس کے دفتر میں خبر دار کیا تھا، جس پر ایڈیٹر نے اُنہیں گرفتار کرا دیا، بعد میں جیل میں عامر چیمہ کو مقتول پایا گیا۔ عامر کی تحریر سے پتہ چلا کہ یہاں کے لوگ ان کو اس معاملہ میں شدید حساسیت رکھنے پر برا بھلا کہتے اور مارا پیٹا کرتے؛ یہی بات ان کی شہادت کا محرک سمجھ لی گئی۔