کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 6
ڈنمارک کے اخبارات کو اس بنا پر ان کی اشاعت کے لئے منتخب کیا گیاکہ وہاں تہذیب ِجدید کے چند کھوکھلے نعرے زیادہ شدت اور شوروغلغلہ کے ساتھ زیر عمل ہیں ۔ پھر ان ممالک میں مروّج اباحیت، مادر پدر آزادی اور یہودیوں کی بڑی جمعیت اس پر مستزاد تھے۔
یوں تو شائع ہونے والے یہ خاکے محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے بڑھ کر کئی مقدس اسلامی تعلیمات تک پھیلے ہوئے تھے، جن میں بالخصوص یہودیوں کے بارے میں مسلمانوں کے تصورات کو ہدفِ طنز وتمسخر بنایا گیا ہے۔ لیکن اس میں سب سے شدید ردعمل اس خاکے پر سامنے آیا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرئہ انور کو نعوذ باللہ کراہت آمیز مشابہت دے کر، عمامۂ مبارک علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم میں ایک بم کو چھپا ہوا دکھایا گیا تھا جس کا سرا ایک طرف سے اُبھرا نظر آتا ہے۔ یہ خاکہ گویا اس امر کا ایک رمزی اظہار ہے کہ اسلام دینِ امن نہیں بلکہ عصبیت وجارحیت کا علم بردار مذہب ہے۔ اس علامتی اظہار کے ساتھ الفاظ میں بھی اس مکروہ الزام کودہرایا جاتا رہا ہے کہ آپ کی ذاتِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جارحیت اور جنگ وجدل کی ایک علامت ہے۔ معاذ اللہ… اسی طرح دیگر خاکوں میں اسلام کے تصورِ جہاد کو بھی ہدفِ ملامت قرار دیتے ہوئے گہرے طنز کے تیر چلائے گئے ہیں ۔ مزید برآں دیگر اقوام یا کفر وشرکے بارے میں اسلام کے نظریات کو بھی کارٹونوں کی زبان میں ہدفِ ملامت ٹھہرایا گیا ہے۔ان خاکوں کے سرسری جائزے سے اس امر میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ یہ سارا عمل ایک منظم منصوبہ بندی، واضح اہداف کے ساتھ اس نظریاتی جنگ اور الزام تراشی کا حصہ ہے جسے مغرب اسلام سے مزعومہ’ سبز جنگ‘ کے لئے درجہ بدرجہ آگے بڑھا رہا ہے۔
ستمبر۲۰۰۵ء میں شائع ہونے والے ان خاکوں پر عالم اسلام میں ایک شدید ردّ عمل سامنے آیا جس پر مغرب کے بعض حکومتی ذمہ داران نے معذرت خواہانہ رویہ اختیار بھی کیا، لیکن اس کو زیادتی باور کرانے کی بجائے مغربی میڈیا نے اظہارِ رائے پر قدغن قرار دیتے ہوئے اپنے ہم وطنوں کے سامنے یہ اشتعال انگیز تصور پیش کیا کہ مسلمانوں کے اس شدید احتجاج کا مطلب یہ ہوا کہ آئندہ ہمیں اپنی رائے کے اظہار کے لئے مسلمانوں سے اجازت لینا ہوگی۔ مغربی میڈیا میں مسلمانوں کے ردّ عمل کو استہزائیہ انداز میں پیش کیا جاتا رہا ، بالخصوص ایرانی