کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 5
﴿یٰحَسْرَۃً عَلی الْعِبَادِ مَا یَاْتِیْہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ إِلاَّ کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِئُ وْنَ﴾ ’’ان بندوں (کی نامرادی ) پر افسوس و حسرت! ان کے پاس جو رسول بھی آتا ہے ، تو یہ اس کا تمسخر اُڑانے سے نہیں چوکتے۔‘‘ (یٰسین:۳۰) پھر اللہ نے اسے قوموں پر عذابِ الیم کی ایک اہم وجہ قرار دیا ہے: ﴿وَلَقَدِ اسْتُہْزِیَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثُمَّ اَخَذْتُہُمْ فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِ ﴾ (الرعد: ۳۲) ’’رسولوں کا اس سے پہلے بھی مذاق اُڑایا جاتا رہا۔ تو میں کافروں کو ڈھیل دیتا رہا، پھر میری پکڑ نے ان کو آلیا … پھر کیسا رہا میرا عذاب!!‘‘ ایسے ہی قرآنِ کریم نے تمسخر اُڑانے والے ایک شخص اخنس بن شریق کو سورئہ قلم میں عُتُلٍّ اور زَنِیْمٌ (سخت جفا کار اور نطفہ حرام) قرار دیتے ہوئے روزِ قیامت اس کی سونڈ سے گرفت کرنے کی وعید دی ہے۔ (آیات ۱۰ تا ۱۶) البتہ زمانۂ حال میں سامنے آنے والی جسارت جہاں اپنی وسعت اور اصرار وڈھٹائی کے لحاظ سے انوکھی ہے، وہاں اس کے مرتکب اس کو جمہوری ثقافت اور اپنا انسانی حق قرار دینے پربھی تلے ہوئے ہیں ۔ یادرہے کہ اس معاملے کو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ درجہ بدرجہ آگے بڑھایا جارہا ہے جس کی پشت پر اقوام متحدہ کے منظور کردہ انسانی حقوق کے چارٹر کی بعض شقوں کو پیش کرنے کی روایت پختہ کی جا رہی ہے۔ فی زمانہ توہینِ رسالت کے اس مکروہ عمل کی وجوہات اس تہذیبی و نظریاتی تصادم میں پیوست ہیں جس کی پیش بندی نیو ورلڈ آرڈر کے تحت، سرد جنگ کے بعد سے ’سبز خطرہ‘ کے زیر عنوان، عالمی استعمار مسلسل چند دہائیوں سے کررہا ہے۔ توہین رسالت کے حالیہ واقعات نائن الیون کے اس امریکی وحشت وجنون کا ایک نمایاں اظہار اور منطقی نتیجہ ہیں جس کو مخصوص ملکی متعصبانہ مقاصد کے لئے امریکی میڈیا نے حادثۂ نیویارک کے بعد کے سالوں میں اختیار کیا تھا۔ ستمبر ۲۰۰۵ء میں پہلی بار شائع ہونے والے یہ خاکے ڈینیل پائپس نامی متعصب امریکی یہودی کے شرپسند دماغ کی پلاننگ کے نتیجے میں منظر عام پر آئے تھے۔ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ باقاعدہ مذموم مقاصد واہداف کے پیش نظر کارٹونوں کے مقابلے منعقد کروا کر