کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 45
فمنقوص بأشیاء أحدھا: الخبر المحتف بالقرائن یفید العلم النظری وممن صرح بہ إمام الحرمین والغزالی والرازی والسیف الآمدی وابن الحاجب ومن تبعھم، ثانیھا: الخبر المستفیض الوارد من وجوہ کثیرۃ لا مطعن فیھا یفید العلم النظري للمتبحر في ھذا الشأن وممن ذھب إلی ھذا الأستاذ أبو إسحٰق الاسفرائینی والأستاذ أبو منصور التمیمی والأستاذ أبو بکر بن فورک۔۔۔ وثالثھا: ما قدمنا نقلہ عن الأئمۃ في الخبر إذا تلقَّتْہ الأمۃ بالقبول ولا شک أن إجماع الأمۃ علی القول بصحۃ الخبرأقوی من إفادۃ العلم من القرائن المحتفۃ ومن مجرد کثرۃ الطرق (النکت علی ابن صلاح:ج۱/ ص۳۷۷،۳۷۸) ’’جہاں تک امام نووی رحمہ اللہ کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ تواتر کے بغیر خبر سے علم یقین حاصل نہیں ہوتا ،تو یہ دعویٰ چند وجوہات کی بنا پر ناقص ٹھہرتاہے۔پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ایسی خبر واحد جس کا قرائن نے احاطہ کیا ہو،علم نظری کا فائدہ دیتی ہے جیسا کہ امامِ حرمین رحمہ اللہ ،امام غزالی رحمہ اللہ ، امام رازی رحمہ اللہ ، علامہ آمدی رحمہ اللہ اور ابن الحاجب رحمہ اللہ وغیرہ نے بیان کیا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ایسی خبرمستفیض جو کئی طرق سے مروی ہواور اس میں کسی قسم کا طعن نہ ہو،علم حدیث کے ماہرین کو علم نظری کا فائدہ دیتی ہے ۔اس بات کواستاذ ابو اسحق اسفرائینی رحمہ اللہ ،ا ستاذ ابو منصور تمیمی رحمہ اللہ اوراُستاذ ابو بکر بن فورک رحمہ اللہ نے بیان کیاہے۔۔۔تیسری بات یہ ہے کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اس بات پر اجماع ہے کہ ایسی خبر واحد جسے اُمت میں ’تلقی بالقبول‘ حاصل ہو قطعا صحیح ہوتی ہے ۔او ر کسی خبر کے صحیح ہونے پر اُمت کے اجماع سے جو علم یقین حاصل ہوتا ہے وہ روایت کے طرقِ کثیرہ یا قرائن محتفہ سے بھی حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ ٭ اسی طرح امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وخبر الواحد المتلقي بالقبول یوجب العلم عند جمہور العلماء من أصحاب أبي حنیفۃ ومالک والشافعی وأحمد وھو قول أکثر أصحاب الأشعري کالأسفرائیني وابن فورک (فتاوی ابن تیمیہ:ج۱۸/ ص۴۱) ’’ایسی خبر واحد جس کو’تلقی بالقبول‘ حاصل ہو، علم کا فائدہ دیتی ہے اور یہی جمہور احناف، مالکیہ، شوافع اور اصحابِ احمد رحمہ اللہ کایہی قول ہے اور اکثر اشاعرہ کا بھی یہی مذہب ہے جیسا کہ