کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 41
ہیں ۔‘‘
٭ شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ کے نزدیک اما م دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے صحیحین پر جو نقد کی ہے وہ اس اعتبار سے نہیں ہے کہ صحیحین کی روایات اس سے ضعیف قرار پائیں بلکہ ان محدثین نے صحیحین پراپنے نقد میں اس امر کی وضاحت کی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ و امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی کتب میں بعض روایات میں صحت ِحدیث کے اس اعلیٰ درجے کا التزام نہیں کیا ہے کہ جس کو اُنہوں نے عام طور پر صحیحین میں بطورِ معیار اختیار کیاہے۔شیخ احمد شاکر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
الحق الذي لا مریۃ فیہ عند أہل العلم بالحدیث من المحققین، وممن اھتدی بھدیھم وتبعھم علی بصیرۃ من الأمر: إن أحادیث الصحیحین صحیحۃ کلھا، لیس في واحد منھا مطعن أو ضعف۔وإنما انتقد الدارقطني وغیرہ من الحفاظ بعض الأحادیث، علی معنی أن ما انتقدوہ لم یبلغ في الصحۃ الدرجۃ العلیا التي التزمھا کل واحد منھما في کتابہ۔وأما صحۃ الحدیث في نفسہ فلم یخالف أحد فیھا۔ فلایھولنک إرجاف المرجفین وزعم الزاعمین أن في الصحیحین أحادیث غیر صحیحۃ (الباعث الحثیث : ص۴۴،۴۵)
’’اس مسئلے میں حق بات جس میں محققین محدثین اور بصیرت کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں کے نزدیک کوئی شک نہیں ہے، یہ ہے کہ صحیحین کی تمام روایات صحیح ہیں ۔ ان میں کوئی ایک بھی روایت ایسی نہیں ہے جو قابل طعن یا ضعیف ہو۔اور امام دار قطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے جو بعض احادیث پر کلام کیاہے، وہ اس اعتبار سے ہے کہ وہ (یعنی نقد شدہ) احادیث صحت کے اس اعلیٰ درجے کو نہیں پہنچتیں جس کاالتزام شیخین نے اپنی کتب کی ہر حدیث میں کیاہے۔ جہاں تک فی نفسہٖ کسی حدیث کی صحت کا معاملہ ہے تو اس میں کسی ایک عالم کا بھی اختلاف نہیں ہے۔ چنانچہ آپ کو افواہیں اُڑانے والوں کاپروپیگنڈا اور گمان کرنے والوں کا گمان ڈرا نہ دے کہ صحیحین میں کچھ روایات ایسی بھی ہیں جو کہ غیر صحیح ہیں ۔ ‘‘
٭ جو بات شیخ احمد شاکر فرما رہے ہیں ، وہی بات امام نووی رحمہ اللہ نے بھی ایک جگہ لکھی ہے، جیسا کہ یہ ان کا یہ اقتباس پیچھے بھی گزر چکا ہے :