کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 4
مذہبی مفاہمت،وسیع النظری، وسعت ِقلبیاور توازن واعتدال کے خوبصورت نعروں سے بھری پڑی ہے۔ تہذیب ِمغرب کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوٹ چکا ہے کہ اس کی بنیادیں ایسے دیدہ زیب نعروں پر قائم ہیں جو مفہوم ومعانی سے محروم ہیں ۔
سکنڈے نیوین ممالک کی یہ شرمناک جسارتیں اور اس پر مستزاد اہل مغرب کی حمایت وتائید اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ دورِ حاضر کی سا لمیت اور امن وامان کو خطرہ ان مزعومہ اسلامی انتہاپسندوں سے نہیں جنہیں مغرب جارح اورجابر قرار دینے کی ہردم رَٹ لگائے رکھتا ہے، بلکہ دنیا میں بسنے والوں کو المناک اذیت اور نظریاتی جارحیت سے دوچار کرنے والے لوگ وہی ہیں جو اپنے تئیں بڑے روشن خیال اور اعتدال پسند قرار دیے جاتے ہیں۔
اسلام کو عدم روا داری کا طعنہ دینے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ماضی قریب میں مذہبی جارحیت کی مسلسل وارداتیں مسلمانوں کی بجائے مغرب کے ہی حصے میں آئی ہیں ، جب قرآنِ عظیم کے بالمقابل ’فرقان الحق‘ کے نام سے ایک اور فرضی قرآن شائع کرنے، قرآنِ مجید کو غسل خانوں میں بہا دینے، مسجد ِاقصیٰ ودیگر تاریخی مساجد کو مسمار کرنے، داڑھی اور حجاب جیسے اسلامی شعارات کو ہدفِ تنقید بنانے اور اہانت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مستمرہ ایسے سیاہ کارنامے مغرب کے نامۂ اعمال کا حصہ بنے ہیں ۔ اس کے بالمقابل غیرمسلموں کے کسی مذہبی شعار، شخصیت یا مقدس ومتبرک کتاب کو نشانۂ جارحیت بنانے کی کوئی ایک کاروائی بھی مسلمانوں کی طرف سے سامنے نہیں آئی کیونکہ دیگر اقوام کے مقدس شعائر کی توہین کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے۔ یہ ایک قوم کے نظریات کی برملا فتح اوراس کی مذہبی شائستگی کا واضح اظہار ہے جس کے بعد مغرب کو مسلمانوں کو رواداری اور اعتدال پسندی کی مسلسل تلقین سے باز آکر اپنی اَقوام کی تربیت پر متوجہ ہوجانا چاہئے کیونکہ مغرب کے عالمی برادری اور پر امن بقائے باہمی کے تصورات کو خطرہ مسلمانوں کی بجائے اپنے فرزندانِ مغرب سے ہی ہے۔
رسولوں کی توہین ایسا مکروہ عمل تاریخ انسانی میں پہلے بھی وقوع پذیر ہوتا رہا ہے۔ اللہ کے دشمنوں کی یہ دیرینہ روایت رہی ہے جس کا شکوہ قرآنِ کریم میں بڑے دل گیر انداز میں موجود ہے۔ سورئہ یاسین میں ارشادِ باری ہے: