کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 39
صحیح ہیں اور ان میں کسی قسم کا بھی اختلاف نہیں ہے۔ اگر کہیں کوئی اختلاف ہے تو وہ اس کے طرق اور راویوں کا اختلاف ہے۔ پس جس عالم کا کوئی حکم صحیحین کی احادیث کے مخالف ہوا اور اس حکم کی کوئی ایسی تاویل نہ ہو جو اس خبر کو شامل ہو سکے تو ہم ایسے حکم کو ردّ کر دیں گے کیونکہ صحیحین کی روایات کو اُمت میں ’تلقی بالقبول‘ حاصل ہے۔ ‘‘
صاحب تنقیح الأنظارشیخ محمد بن ابراہیم الوزیر رحمہ اللہ کے نزدیک صحیحین کی احادیث پر کلام سے ان کی روایات نہ توضعیف ہوتی ہیں اورنہ ہی اس سے ضعف لازم آتا ہے۔ فرماتے ہیں :
اعلم أن المختلف فیہ من حدیثھما ھو الیسیر و لیس في ذلک الیسیر ما ھو مردود ۔۔۔ بطریق قطعیۃ ولا إجماعیۃ بل غایۃ ما فیہ أنہ لم ینعقد علیہ الإجماع وأنہ لا یتعرض علی من عمل بہ ولا علی من توقَّف في صحتہ ولیس الاختلاف یدل علی الضعف ولا یستلزمہ۔
(الروض الباسم: ج۱/ ص۲۷۷)
’’یہ بات جان لیں کہ صحیحین کی بہت کم روایات( کی صحت و ضعف) کے بارے میں محدثین کا اختلاف ہے اور یہ مختلف فیہ روایات بھی قطعیت کے ساتھ یا اجماعاًمردود نہیں ہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ( ان روایت پر کلام سے) یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان روایات کی صحت پر محدثین کا اجماع نہیں ہے۔ لہٰذانہ اس کے پیچھے پڑا جائے گاجو کہ ان پر عمل کرتا ہے اور نہ اس سے تعرض ہو گا جو کہ ان کی صحت میں توقف کرتا ہے ا ور محدثین کے اس قسم کے اختلاف سے نہ ہی کوئی روایت ضعیف ہوتی ہے اور نہ ہی اس کا ضعف لازم آتا ہے۔‘‘
٭ امام شوکانی رحمہ اللہ کے نزدیک اب کسی بھی عالم کے لیے صحیحین کی کسی سند پر کلام کی گنجائش باقی نہیں رہی ۔ فرماتے ہیں :
وقد دفع أکابر الأمۃ من تعرض للکلام علی شيء مما فیھما ورَدوہ أبلغ رد وبینوا صحتہ أکمل بیان فالکلام علی أسنادہ بعد ھٰذا لا یأتی بفائدۃ یعتد بھا فکل رواتہ قد جاوز القنطرۃ وارتفع عنھم القیل والقال وصاروا أکبر من أن یتکلم فیھم بکلام
(قطر الولی: ص۲۳۰،۲۳۱)
’’اُمت کے اکابر علما نے ان تمام شبہات کا جواب دیا ہے جو صحیحین پر کیے گئے تھے اور ان