کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 38
فرماتے ہیں : ما احتج البخاري ومسلم وأبوداود بہ من جماعۃ علم، الطعن فیھم من غیرھم محمول علی أنہ لم یثبت الطعن المؤثر مفسر السبب (مقدمہ للنووی لشرح صحیح مسلم،ج۱/ ص۲۵) ’’جن رواۃ سے امام بخاری رحمہ اللہ امام مسلم رحمہ اللہ اور ابوداودنے اپنی کتابوں میں حدیث لی ہے، ان میں سے بعض پر ان کے علاوہ محدثین کی طرف سے جو جر ح ہوئی ہے، اس سے ان رواۃ پر کوئی ایسامؤثر طعن ثابت نہیں ہوتاجو کہ سبب طعن کی وضاحت کرنے والابھی ہو ۔‘‘ ٭ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح بخاری کی نقد شدہ احادیث بھی کئی فوائد کی حامل ہیں ۔ لکھتے ہیں : (البخاري) فإنہ أبعد الکتابین عن الانتقاد۔۔۔وفي الجملۃ من نقد سبعۃ آلاف درھم فلم یرج فیھا إلا دراھم یسیرۃ ومع ھذا فھي مغیّرۃ لیست مغشوشۃ محضۃ فھذا إمام في صنعتہ۔ (منہاج السنۃ: ج۷/ص۲۱۶) ’’صحیح بخاری دونوں کتابوں (یعنی صحیحین)میں سے تنقید سے زیادہ دور ہے او ر من جملہ جو شخص سات ہزاردراہم کی جانچ پڑتال کرتا ہے اور ان میں چند(پرانے) دراہم کے علاوہ کسی چیز کی ملاوٹ نہیں کرپاتاباوجودیکہ یہ (پرانے)دراہم بھی محض کھوٹے سکے نہیں ہیں بلکہ معتبرہیں ، کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ اس فن کے امام تھے۔ ‘‘ ٭ سخاوی رحمہ اللہ کے نزدیک صحیحین کی روایات پر ہونے والی نقد سے اس کی کسی روایت کا ضعف ثابت نہیں ہوتا ۔چنانچہ وہ امام ابو اسحق اسفرائینی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں : أھل الصنعۃ مجمعون علی أن الأخبار التي اشتمل علیھا الصحیحان مقطوع بصحتہ أصولھا ومتونھا لایحصل الخلاف فیھا بحال وإن حصل فذاک اختلاف في طرقھا ورواتھا۔ قال: فمن خالف حکمہ خبرًا منھا ولیس لہ تأویل سابغ للخبر نقضنا حکمہ لأن ھذہ الأخبار تلقَّتْھا الأمۃ بالقبول (فتح المُغیث:ج۱/۵۱) ’’اہل فن کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحیحین کی تمام احادیث کے اُصول اور متون قطعی طور پر