کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 37
اس کی یہ تنقیدصحیحین پر کوئی مستقل بالذات تنقید شمار نہ ہو گی اور ایسی تنقید کاائمہ سلف ہی میں سے بہت سے ائمہ نے کافی و شافی جواب دے دیا ہے ۔اور اگر کوئی شخص صحیحین کی کسی ایسی روایت پر تنقید کرتا ہے جس پر ائمہ سلف میں سے کسی نے بھی کلام نہ کیا ہو تو ایسا شخص اجماعِ محدثین کی مخالفت کر رہا ہے، کیونکہ جن روایات پر محدثین نے تنقید نہ کی تو اس سے یہ طے ہو گیا کہ تمام محدثین کے نزدیک یہ روایات صحیح ہیں لہٰذا ان روایات پر کلام کرنا جمیع محدثین کے دعوی صحت کو چیلنج کرنا ہے اور ایسا دعویٰ مردود ہے چہ جائیکہ اس کی تحقیق کی جائے۔
اب اس مسئلے کی طرف آتے ہیں کہ محدثین مثلاً امام دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے صحیحین کی روایات پر جو کلام کیاہے، کیا اس سے صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی روایات کو ضعیف قرار دیا جا سکتا ہے ؟ امام نووی رحمہ اللہ کے نزدیک اما م دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے صحیحین کی بعض روایات پرجن اُصولوں کی روشنی میں کلام کیا ہے، وہ اُصول جمہور محدثین اور فقہا کے ہاں قابل قبول نہیں ہیں ۔
٭ جمال الدین قاسمی ا مام نووی رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں :
وقال النووي في شرح البخاري: ما ضعف من أحادیثھما مبني علی علل لیست بقادحۃ (قواعد التحدیث، ص۱۹۸)
’’امام نووی رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی شرح میں لکھا ہے کہ صحیحین کی جن احادیث کو ضعیف قرار دیا گیا ہے وہ ایسی علل پر مبنی ہیں جو کہ ’علل قادحہ‘ نہیں ہیں ۔‘‘
٭ ایک اورجگہ حافظ ابن حجر امام نووی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں :
وذلک الطعن ذکرہ مبني علی قواعد لبعض المحدثین ضعیفۃ جدًّا مخالفۃ لما علیہ الجمھور من أھل الفقہ والأصول وغیرھم
’’امام دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے صحیحین کی احادیث پر جو طعن کیا ہے، وہ بعض محدثین کے ایسے قواعد پر مبنی ہے جو بہت ہی ضعیف ہیں اور ان قواعد کے مخالف ہیں کہ جن کوجمہور فقہا اور اُصولیین وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ ‘‘ (ہدی الساری مقدمہ فتح الباری، ص۳۴۶)
٭ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح بخاری و صحیح مسلم کے جن رواۃ پربعض دوسرے محدثین کی طرف سے جرح ہوئی ہے، وہ ایسی جرح نہیں ہے جو موجب ِ طعن ہو۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ