کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 36
اُنہوں نے ان کو مواضع کثیرۃ قرار دیا اور جن ائمہ نے متکلم فیہ مقامات کو صحیحین کی غیر متکلم فیہ روایات کی نسبت سے دیکھا تو اُنہوں نے ان مقامات کو مواضع یَسِیرۃ (چند)قرار دیا جیسا کہ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ وغیرہ کی رائے ہے ۔ امام نووی رحمہ اللہ کے نزدیک صحیحین کی تقریباً ساڑھے بارہ ہزار روایات میں دو سو احادیث ایسی ہیں جن پر تنقید ہوئی ہے اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق صحیحین کی تقریباً بیس روایات ایسی ہیں جن پر نقد صحیح ہوا ہے او ر ان میں سے بھی اکثر روایات صحیح مسلم کی ہیں ۔لہٰذا اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے کہ صحیحین کی کتنی احادیث یا مقامات پر تنقید ہوئی تو یہ احادیث یا مقامات مواضع کثیرۃمعلوم ہوتے ہیں اور اگر دوسرے پہلو سے غور کیا جائے کہ ا یسی کتنی احادیث ہیں کہ جن پر نقد صحیح(valid)ہوئی ہے تو یہ مواضع یسیرۃ معلو م ہوں گی۔ صحیحین کی نقد شدہ احادیث کا درجہ کیا ہے؟ صحیحین پر امام دارقطنی رحمہ اللہ ،ابو مسعود دمشقی رحمہ اللہ اور ابو علی غسانی رحمہ اللہ وغیرہم کی تنقید سے ان کتب کا رتبہ بہت بڑھ گیاہے، کیونکہ صحیحین پر جلیل القدر ائمہ محدثین کی تنقید کے بعد ان مقامات ا ور روایات کی وضاحت ہو گئی جن میں کوئی علت محسوس ہوتی تھی یا کسی علت کے پائے جانے کا امکان تھا۔صحیحین پر ہونے والی اس تنقید کا جواب امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے شرح بخاری اور اس کے علاوہ بہت سے علماے عظام نے مستقل اپنی کتابوں میں دیا ہے۔ صحیحین پر ہونے والی اس تمام تنقید اور اس کے جواب کے بعد ان دونوں کتب میں وہ مقامات متعین ہو گئے ہیں جن میں کوئی علل پائے جانے کا خیال تھااور ان علل کے درجہ کا تعین بھی ہو گیا ہے کہ وہ علل قادحہ ہیں یا نہیں ہیں ۔اب عصر حاضر میں کسی بھی عالم کے لیے یہ گنجائش باقی نہیں رہی کہ وہ صحیحین کی کسی ایسی روایت پر کلام کرے جس پر سلف نے کلام نہ کیا ہو،کیونکہ حافظ دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ کے کام سے یہ متعین ہو گیا کہ صحیحین میں صرف یہ مقامات ایسے ہیں جن میں کلام کی گنجائش موجود ہے۔ اب اگر کوئی شخص امام دارقطنی رحمہ اللہ یاائمہ سلف میں سے کسی اور محدث کی بیان کردہ تحقیقات کی روشنی میں صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی کسی حدیث پر نقد کرتا ہے تو