کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 35
دیا اور سوائے چار احادیث کے باقی تمام روایات کی صحت کی توثیق کی۔‘‘ ٭ حافظ دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہم نے صحیحین کے تقریباً دو سو مقامات پر بعض اعتراضات وارد کیے ہیں ۔ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : قد استدرک جماعۃ علی البخاري ومسلم أحادیث أخلا بشرطھما فیھا ونزلت عن درجۃ ما التزماہ ۔۔۔ و قد ألَّف الإمام الحافظ أبو الحسن علي بن عمر الدارقطني في بیان ذلک کتابہ المسمّٰی بالاستدراکات والتتبع وذلک في مائتي حدیث مما في الکتابین (مقدمہ نووی بر صحیح مسلم،ص۱۴۶) ’’محدثین کی ایک جماعت نے صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی بعض ایسی روایات کو جمع کیا ہے جن میں دونوں اماموں نے اپنی اعلیٰ شرائط کا لحاظ نہیں رکھا اور ایسی روایات بھی اپنی کتب میں نقل کر دیں جو باعتبارِ صحت صحیحین کی عام روایات سے درجے میں کم ہیں ۔۔۔ حافظ علی بن عمر دارقطنی رحمہ اللہ نے اس موضوع پرالاستدراکات والتـتبُّع کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس میں اُنہوں نے صحیحین کی ایسی دو سو روایات کو جمع کیا ہے۔‘‘ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح بخاری کے ایک سو دس مقامات ایسے ہیں جن پر امام دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے نقد کی ہے ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وعدۃ ما اجتمع لنا من ذلک مما في کتاب البخاري وإن شارکہ مسلم في بعضہ مائۃ وعشرۃ أحادیث منھا ما وافقہ مسلم علی تخریجہ وھو اثنان وثلاثون حدیثًا ومنھا ما انفرد بتخریجہ وھو ثمانیۃ وسبعون حدیثا ’’اور صحیح بخاری میں ’ متکلم فیہ‘ روایات کی تعداد ایک سودس ہے کہ جن میں سے بتیس روایات ایسی ہیں جو صحیح مسلم میں بھی موجود ہیں اور اٹھتر[۷۸]وایات ایسی ہیں جو صرف بخاری میں ہیں ۔‘‘ (ہدي الساري مقدمۃ فتح الباري،ص۳۴۵) ٭ اوپر کی بحث سے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ علما کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں تنقیدی مقامات کم ہیں یا زیادہ،ہمارے خیال میں یہ اختلاف لفظی ہے جن محدثین نے صحیحین کے تنقید شدہ مقامات کو بذاتہ دیکھا جیسا کہ حافظ عراقی رحمہ اللہ وغیرہ، تو