کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 34
ہاں معروف ہیں ۔‘‘
٭ حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ (متوفی ۸۰۶ھ)کے نزدیک صحیح بخاری و صحیح مسلم کے وہ مقامات جن پر تنقید ہوئی ہے وہ تھوڑے نہیں بلکہ زیادہ ہیں، اپنی کتاب میں فرماتے ہیں :
أن ما استثناہ من المواضع الیسیرۃ قد أجاب عنھا العلماء أجوبۃ ومع ذلک فلیست بیسیرۃ بل ھي مواضع کثیرۃ وقد جمعتھا في تصنیف مع الجواب عنھا (التقیید والإیضاح، ص۲۹)
’’ابن الصلاح رحمہ اللہ نے ’تلقی با لقبول‘سے جن چندمقامات کو مستثنیٰ قراردیا ہے ان کا بھی علماء نے (صحیح بخاری و صحیح مسلم کا دفاع کرتے ہوئے)جواب دیا ہے اور ایسے مقامات تھوڑے نہیں بلکہ کافی ہیں ، میں نے ان تمام مقامات کو جمع کرکے ان کا جواب بھی دیا ہے۔ ‘‘
٭ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک صحیحین کی جن روایات پر بعض محدثین نے نقد کی ہے، ان میں سے صرف بیس روایات ایسی ہیں کہ جن پر کلام کی گنجائش تھی۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
قد نظر أئمۃ ھذا الفن في کتابیھما ووافقوھما علی تصحیح ماصحَّحاہ إلا مواضع یسیرۃ نحو عشرین حدیثًا غالبھا في مسلم
(منہاج السنۃ: ج۷/ ص۲۱۵)
’’فن حدیث کے علما نے امام بخاری رحمہ اللہ و امام مسلم رحمہ اللہ کی کتابوں کا بغور مطالعہ کیا ہے اور اُنہوں نے ان دونوں کتابوں کی احادیث کی صحت پر ان حضرات کی تصحیح سے اتفاق کیا ہے، سوائے چند مقامات کے جو تقریباً بیس کے قریب روایات ہیں اور ان میں سے بھی اکثر صحیح مسلم میں ہیں ۔‘‘
٭ نقاد فن علی بن مدینی رحمہ اللہ ،امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ و غیرہم کے نزدیک صحیح بخاری میں صرف چارروایات معلول تھیں ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
لما صنَّف البخاري کتاب الصحیح عرضہ علی ابن المدیني وأحمد بن حنبل ویحیٰی بن معین وغیرھم فاستحسنوہ وشھدوا لہ بالصحۃ إلا أربعۃ أحادیث (ہدي الساري مقدمۃ فتح الباري،ص۴۹۱)
’’جب امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی’ صحیح‘ مکمل کر لی تو اُنہوں نے اس کتاب کو امام علی بن مدینی رحمہ اللہ ، امام احمد بن حنبل، رحمہ اللہ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ وغیرہ پر پیش کیا تو اُنہوں نے اس کتاب کو عمدہ کتاب قرار