کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 33
متواتر ہیں اور جو کوئی بھی ان دونوں کتابوں کا درجہ کم کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کے رستے پر نہیں ہے۔‘‘ ٭ معروف دیوبندی عالم مولانا سرفراز خان صفدر لکھتے ہیں : ’’بخاری و مسلم کی جملہ روایات کے صحیح ہونے پراُمت کا اجماع واتفاق ہے۔ اگر صحیحین کی ’معنعن‘ حدیثیں صحیح نہیں تو اُمت کا اتفاق اوراجماع کس چیز پرواقع ہواہے جبکہ راوی بھی سب ثقہ ہیں ۔‘‘ (احسن الکلام،مولانا محمد سرفرازصفدر :ج۱/ص۲۴۹) پس معلوم ہوا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی جمیع روایات کی صحت پر ائمہ محدثین کا اتفاق ہے اور یہ اتفاق ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی اجتہادی مسئلے میں فقہا کا اتفاق ہوتا ہے۔ اور یہ بات واضح رہے کہ کسی حدیث کی تصحیح یا تضعیف میں محدثین کا اجماع ہی معتبر ہو گا اور اس میں کسی فقیہ کی مخالفت سے اجماع کا دعویٰ متاثر نہ ہوگا، جس طرح کے کسی فقہی مسئلے میں اصل اعتبار فقہا کے اتفاق کا ہو گا اور کسی محدث کے اختلاف سے اجماع ختم نہیں ہو گاکیونکہ ہر فن میں اہل فن کا ہی اتفاق و اجماع معتبر ہو تا ہے۔ کیا صحیحین کی بعض روایات پر ا ئمہ سلف کی طرف سے تنقید ہوئی ہے ؟ صحیحین کی اکثر و بیشتر روایات وہ ہیں جن کی صحت پر ائمہ سلف میں سے کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا ۔ہاں چند ایک مقامات ایسے ہیں جن پر بعض محدثین نے نقد کیا ہے۔ ٭ امام ابن الصلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں : أن ما انفرد بہ البخاري أو مسلم مندرج في قبیل ما یقطع بصحتہ لتلقي الأمۃ کل واحد من کتابیھما بالقبول۔۔۔ سوٰی أحرف یسیرۃ تکلَّم علیھا بعض أھل النقد من الحفاظ کالدارقطني وغیرہ وھي معروفۃ عند أھل ھذا الشأن (مقدمہ ابن صلاح ، ص۱۴،۱۵) ’’جس حدیث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ یا امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں روایت کیا ہے وہ قطعی طور پر صحیح ہے کیونکہ اُمت میں ان دونوں ائمہ کی کتب کو’تلقی بالقبول‘ حاصل ہے۔۔۔سواے چند کلمات کے جن پر بعض حفاظ مثلاً اما م دار قطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے کلام کیا ہے اور یہ مقامات اہل فن کے