کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 32
کے طریقہ کی پیروی کرتے ہوئے صرف انہی احادیث کو بیان کیا جن کی صحت پر اجماع تھا۔‘‘
٭ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فقد أجمع أھل ھذا الشأن علی أن أحادیث الصحیحین أو أحدھما کلھا من المعلوم صدقہ بالقبول المجمع علی ثبوتہ وعند ھذہ الإجماعات تندفع کل شبھۃ وتزول کل تشکیک (قطر الولی،ص۲۳۰)
’’اہل فن کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحیحین یا ان میں سے کسی ایک کی تمام احادیث کا صحیح ہونااُمت میں ان کتابوں کے’تلقی بالقبول‘ سے ثابت ہے اور اس ’تلقی بالقبول‘ کے ثابت ہونے پر اجماع ہے ۔ اور اس قسم کے اجماعات سے ہر قسم کا شبہ رفع ہو جاتا ہے اور شک دور ہو جاتا ہے۔‘‘
٭ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے بھی صحیحین کی صحت پر اجماع نقل کیا ہے ۔ فرماتے ہیں :
’’أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی أن جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع وأنھما متواتران إلی مصنفیھما وأنہ کل من یھون أمرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین‘‘ (حجۃ اللہ البالغہ ج۱/ ص۲۹۷)
’’جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ جو بھی متصل مرفوع احادیث صحیحین میں موجود ہیں ، وہ قطعاًصحیح ہیں اور ان دونوں کتابوں کی سند اپنے مصنّفین تک متواتر ہے اور جو کوئی بھی ان کتابوں کی قدر و قیمت کم کرنا چاہتا ہے، وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کے رستے پر نہیں ہے۔‘‘
٭ تحفۃ الاحوذی کے مؤلف علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ بھی شاہ ولی اللہ کے الفاظ دہراتے ہیں :
’’أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی أن جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع وأنھما متواتران إلی مصنفیھما وأنہ کل من یھون أمرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین‘‘ (مقدمۃ تحفۃ الأحوذي، ص۴۷)
’’جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ان دونوں کتابوں میں جتنی متصل مرفوع احادیث موجود ہیں ، وہ قطعی طور پر صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنّفین تک