کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 31
حَکَمَا بصحتہ من قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم لما ألزمتہ الطلاق ولا حنثتہ لإجماع المسلمین علی صحتھما (المنہاج شرح صحیح مسلم:ج ۱/ص۱۳۶)
’’کوئی شخص یہ قسم اُٹھا لے کہ اگر صحیح بخار ی و صحیح مسلم کی تمام روایات صحیح نہ ہوں تو اس کی بیوی کو طلاق ہے، تو ایسی صورت میں اس کی بیوی کو نہ تو طلاق ہو گی اور نہ وہ شخص ’حانث‘(قسم توڑنے والا)ہو گا کیونکہ مسلمانوں کا صحیح بخار ی و صحیح مسلم کی صحت پر اجماع ہے ۔‘‘
٭ ابو نصر سجزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أجمع أھل العلم الفقہاء و غیرھم أن رجلا لوحلف بالطلاق أن جمیع ما في کتاب البخاري مما رُوِی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قد صح عنہ ورسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم قالہ لا شک فیہ أنہ لا یحنث و المرأۃ بحالھا في حبالتہ (مقدمہ ابن الصلاح، ص۲۶)
’’تمام اہل علم فقہاوغیرہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص اس بات پر حلف اٹھا لے کہ جو کچھ صحیح بخاری میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کردہ روایات موجود ہیں ، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ثابت ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے فرامین ہیں ، تو ایسا شخص حانث نہ ہو گا اور عورت اس کے عقد میں ہی باقی رہے گی۔‘‘
٭ علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وجاء محمد بن إسمٰعیل البخاري إمام المحدثین في عصرہ فخرج أحادیث السنۃ علی أبوابھا في مسندہ الصحیح بجمیع الطرق التي للحجازیین والعراقیین والشامیین واعتمدوا منھا ما أجمَعوا علیہ دون ما اختلفوا فیہ۔۔۔ ثم جاء الإمام مسلم بن الحجاج القشیري فألَّف مسندہ الصحیح حذا فیہ حذو البخاري في نقل المجمع علیہ (مقدمہ ابن خلدون،ص۴۹۰)
’’اس کے بعد امام محدثین محمد بن اسمٰعیل بخاری رحمہ اللہ اپنے زمانے میں سامنے آئے۔ اُنہوں نے اپنی صحیح مسند میں احادیث کو ابواب کی ترتیب پر بیان کیا اور اپنی کتاب میں حجازیوں ، عراقیوں اور شامیوں کے ان طرق سے احادیث کو نقل کیا جن پر ان کا اجماع تھااور جن طرق میں اختلاف تھا ان کو نہ لیا۔۔۔ پھر امام مسلم بن حجاج قشیری رحمہ اللہ آئے، اُنہوں نے صحیح مسند میں امام بخاری رحمہ اللہ