کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 30
کیا صحیح بخاری و صحیح مسلم کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے؟ بعض محدثین کا یہ دعویٰ ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے۔ ٭ ابن الصّلاح رحمہ اللہ (متوفی۶۴۳ھ) کہتے ہیں : جمیع ما حَکَمَ مسلمٌ بصحَّتہ من ھٰذا الکتاب فھو مقطوع بصحتہ والعلم النظري حاصل بصحتہ في نفس الأمر وھٰکذا ما حَکَمَ البخاري بصحتہ في کتابہ وذلک لأن الأمۃ تلقَّتْ ذلک بالقبول سوٰی من لا یعتد بخلافہ ووفاقہ في الاجماع (صیانۃ صحیح مسلم ، ص۸۵) ’’وہ تمام احادیث جن کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں صحیح کہاہے، ان کی صحت قطعی ہے اور ان سے حقیقت میں (حتمی)علم نظری حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح کامعاملہ ان احادیث کا بھی ہے جن کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں صحیح کہا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام اُمت کے نزدیک ان کتابوں کو ’تلقی بالقبول‘ حاصل ہے، سواے ان افراد کے کہ جن کے اختلاف یا اتفاق سے اس اِجماع کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔‘‘ ٭ معروف محدث شیخ ابو اسحاق اسفرائینی رحمہ اللہ نے بھی اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ صحیحین کی تمام روایات صحیح ہیں اور ان سے علم قطعی حاصل ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : الأستاذ أبو إسحق الإسفرائیني فإنہ قال: أھل الصُّنعۃ مجمَّعُون علی أن الأخبار التي اشتمل علیھا الصحیحان مقطوع بھا عن صاحب الشرع وإن حصل الخلاف في بعضھا فذٰلک خلاف في طُرُقھا ورُوَاتھا (النُّکت علیٰ کتاب ابن الصلاح: ج۱/ ص۳۷۷) ’’اُستاذ ابو اسحق اسفرائینی رحمہ اللہ نے کہا:اہل فن کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیحین میں جو احادیث موجود ہیں ، وہ قطعیت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ، اگر ان میں موجود بعض روایات میں اختلاف ہے تو یہ ان احادیث کے طرق اور راویوں کے بارے میں اختلاف ہے۔ (اگرچہ ان احادیث کی روایت دوسرے طرق سے مسلم ہو جاتی ہے)۔‘‘ ٭ امام الحرمین جوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لو حَلَف إنسان بطلاق امرأتہ أن ما في کتابي البخاري ومسلم ممَّا