کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 3
دورِجدید میں ریاست کاادارہ غیرمعمولی حیثیت رکھتا ہے، اورعصری مفکرین ہر قسم کے حقوق پر ریاست کے حقوق کو برتر قرار دیتے ہیں ۔ ریاست کا یہ جدید تصور ایک قوم ونسل اور ارضِ وطنکی خدمت سے عبارت ہے، جبکہ اس کے بالمقابل اسلام کا تصورِ ریاست زمین اور نسل سے بالا تر ہوکر عقیدہ و نظریہ کی بنیاد پر قائم ہے،جس میں سب سے محترم استحقاق اس ذاتِ مقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے جس پر اس دین کی پوری عمارت قائم ہے۔ اس لحاظ سے جدید مفکرین کا ریاست کے حقوق کو بالا تر قرار دینے کے نظریہ کے بالمقابل اسلام میں اس شخصیت کا حق سب سے بالاتر قرار پاتا ہے جو مسلم قوم کی یکجہتی اور اجتماعیت کے علاوہ انکے عقیدہ ونظریہ کا مرکز و محور ہو۔مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر ارضِ وطن کے حقوق سے برتر عائد ہونے والا حق اس ذاتِ مصطفویت کا ہے جنہیں قرآن نے ’رحمتہ للعالمین‘ کے لقب سے ملقب کیا ہے۔
آج کا دور حقوق کے نعروں اور آزادی کے غلغلوں کا دورہے۔ اس دور کا آزاد منش انسان اپنے حقوق کے حصول کے لئے سرگرم ہے، انسانی حقوق کا چارٹر اقوامِ متحدہ نے اس کے ہاتھ میں دے کر انسانیت کو گویا ایک متوازی مذہب تھما دیا ہے لیکن یہ نادان انسان اپنے حقوق کے غلغلے میں اس شرفِ انسانیت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کو پامال کرنے پر تلا بیٹھا ہے جو انسانیت کی معراج اور اعزاز وتکریم کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہیں ۔ اپنے چند خود ساختہ حقوق کی رو میں انسان کو محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے ’اُمّ الحقوق‘ کا بھی کوئی پاس نہیں رہا جو ذات انسانیت کو قعر مذلت سے نکال کر رشد وہدایت پر فائز کرنے کے لئے مبعوث کی گئی ۔
اس دور میں بسنے والے انسان اس لحاظ سے انتہائی قابل رحم ہیں کہ ان کی زندگیوں میں محسن انسانیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو وسیع پیمانے پر سب وشتم کا نشانہ بنایا گیا۔ اس پر طرہ یہ کہ یہ ظلم وستم دنیا کے ایسے ممالک میں وقوع پذیر ہوا جو اپنے آپ کو حقوقِ انسانی کے چمپئن قرار دیتے ہیں ۔ سکنڈے نیویا کے ان ممالک کو شخصی آزادیوں اور فلاحی معاشروں کا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ ذاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کی کوششوں نے جہاں ان ممالک میں بسنے والوں کی تہذیب وشائستگی کا کچا چٹھا پوری دنیا کے سامنے کھول کررکھ دیا ہے، وہاں اس مغربی تہذیب وفلسفہ کے دعووں کا تارو پود بھی بکھیر دیا ہے جو روا داری، انسانیت دوستی، باہمی احترام و آشتی،