کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 28
صحیحیھما مما لم یبلغ حد التواتر فانہ أحتف بہ قرائن: منھا جلالتھما في ھذا الشأن وتقدمھما في تمییز الصحیح علی غیرھما وتلقي العلماء لکتابیھما بالقبول (شرح نخبۃ الفکر :ص۲۰تا۲۲) ’’الخبر المحتف بالقرائن کی کئی اقسام ہیں :ان میں ایک وہ ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہو اور وہ تواتر کی حد کو نہ پہنچی ہو۔ایسی خبر واحد کے ساتھ بہت سے قرائن ملے ہوتے ہیں : جن میں ایک فنِ حدیث میں امام بخاری رحمہ اللہ و امام مسلم رحمہ اللہ کا عظیم المرتبت ہونا ہے۔ دوسرا، ان حضرات کو صحیح احادیث کو ضعیف سے الگ کر کے بیان کرنے میں باقی ائمہ پر فوقیت حاصل ہے۔ تیسراان کی کتب کو علما کی طرف سے تلقی بالقبول[1] (مقبولیت عامہ) حاصل ہے۔‘‘ کیاصحیح بخاری و صحیح مسلم کی تمام روایات صحیح ہیں ؟ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ دونوں کا اپنی صحیحین کے بارے میں دعویٰ یہ ہے کہ ان کی صحیحین میں موجود تمام روایات صحیح حدیث کے درجے کو پہنچتی ہیں ۔ ٭ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب ’صحیح بخاری‘ کے بارے میں فرماتے ہیں : ما أدخلت في ھٰذا الکتاب إلا ما صحَّ (سیر اعلام النبلاء : ج۱۰/ص۲۸۳) ’’میں نے اپنی اس کتاب میں صرف صحیح روایات ہی کو بیان کیا ہے۔‘‘ ’’ما أدخلت في الصحیح حدیثًا إلا بعد أن استخرت ﷲ تعالی وتیقَّنتُ صحَّتَہٗ‘‘ (ہدی الساري مقدمہ فتح الباری ،ص۳۴۷) ’’میں نے اپنی ’صحیح‘ میں کوئی حدیث اس وقت تک نہیں لکھی جب تک میں نے اللہ سے استخارہ نہیں کر لیا اور مجھے اس حدیث کی صحت کا یقین نہیں ہو گیا۔‘‘ ٭ ’’ما أدخلت في کتابِي الجامع إلامَاصَحَّ‘‘(تہذیب الکمال:ج۲۴/ص۴۴۲) ’’میں نے اپنی کتاب’ الجامع‘میں صرف صحیح احادیث ہی بیان کی ہیں ۔‘‘
[1] مقبولیت ِعامہ اچھی شہرت کی بنا پر حاصل ہوتی ہے۔ یعنی بعض احادیث کی صحت وضعف اہل فن کے ہاں زیر بحث آئی ہو، لیکن اس ردّ و قدح کے نتیجے میں متعلقہ حدیث کی حیثیت اور مقام نکھرکر سامنے آگیا ہو تو اسی کو تلقی بالقبول (قبولیت ِعامہ) قرار دیا جاتا ہے۔